بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاقِ رجعی کی صورت میں شوہر بیوی کی رضامندی کے بغیر بھی رجوع کرسکتا ہے


سوال

میرے شوہر نے تقریباً دو ماہ قبل مجھے ان الفاظ کے ساتھ طلاق دی تھی کہ: "میں تمہیں طلاق دیتا ہوں" ،اب وہ مجھ سے رجوع کرنا چاہتا ہے اوراپنے دوستوں سے کہا ہے کہ "میں بات کرنا چاہتا ہوں"، اور بعض دفعہ  فون کرکے بھی میرے رشتہ داروں سے کہا کہ "میں اس سے بات کرنا چاہتا ہوں"، لیکن میں بات نہیں کرتی، گھر پر بھی آیا ہے، لیکن  میں ان سے بات کرنے کے لیے سامنے نہیں آئی، تو اب سوال یہ ہے کہ کیا اس سے رجوع ہوگیا ہے یا نہیں؟ اور کیا میری مرضی کے بغیر شوہر رجوع کرسکتا ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں شوہر کا مذکورہ جملے کہنے سے رجوع نہیں ہوا ہے،البتہ عدت(تین ماہواریاں، یا حمل کی صورت میں وضع حمل)  کے دوران وہ  اپنی بیوی کی رضامندی کے بغیر بھی رجوع کرسکتا ہے، اور رجوع کا طریقہ یہ ہے کہ شوہر زبان سے کہہ دے کہ " میں نے تم سے رجوع کیا" یا اس طرح کہے کہ " میں نے اپنی بیوی سے رجوع کیا" اور اس پر احتیاطاً گواہ بھی بنالے۔

ہدایہ میں ہے:

" وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض " لقوله تعالى: {فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ} [البقرة: 231] من غير فصل ولا بد من قيام العدة لأن الرجعة استدامة الملك ألا ترى أنه سمى إمساكا وهو الإبقاء وإنما يتحقق الاستدامة في العدة لأنه لا ملك بعد انقضائها " والرجعة أن يقول راجعتك أو راجعت امرأتي " وهذا صريح في الرجعة ولا خلاف فيه بين الأئمة."

(کتاب الطلاق،باب الرجعة،2/254، ط:دارإحياء التراث العربي)

عنایہ میں ہے:

"وألفاظ (الرجعة أن يقول راجعتك) إن كان في حضرتها (أو راجعت امرأتي) في الغيبة بشرط الإعلام أو في الحضرة أيضا، أو يقول رددتك أو أمسكتك، أو يقول أنت عندي كما كنت، أو أنت امرأتي إن نوى الرجعة، ولا خلاف لأحد في جواز الرجعة بالقول."

(باب الرجعة، 4/161، دارالفكر)

الدر مع الرد میں ہے:

"وتصح مع إكراه وهزل ولعب وخطإ (بنحو) متعلق باستدامة (رجعتك) ورددتك ومسكتك بلا نية لأنه صريح .

(قوله: بنحو راجعتك) الأولى أن يقول بالقول نحو راجعتك ليعطف عليه قوله الآتي وبالفعل ط، وهذا بيان لركنها وهو قول، أو فعل.

والأول قسمان: صريح كما مثل، ومنه النكاح والتزويج كما يأتي، وبدأ به لأنه لا خلاف فيه. وكناية مثل أنت عندي كما كنت وأنت امرأتي، فلا يصير مراجعا إلا بالنية أفاده في البحر والنهر. (قوله: راجعتك) أي في حال خطابها، مثله: راجعت امرأتي في حال غيبتها وحضورها أيضا، ومنه ارتجعتك ورجعتك فتح (قوله: ورددتك ومسكتك) قال في الفتح: وفي المحيط مسكتك بمنزلة أمسكتك وهما لغتان، وفي بعض المواضع يشترط في رددتك ذكر الصلة فيقول إلي، أو إلى نكاحي أو إلى عصمتي وهو حسن إذ مطلقه يستعمل لضد القبول. اهـ."

(كتاب الطلاق، باب الرجعة، 3/398، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144307101147

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں