بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق رجعی کے بعد میاں بیوی کا ساتھ رہنا


سوال

 زید کے والد نے زید کی والدہ سے لڑائی کے درمیان کہا کہ:  تم کو طلاق ہے کہ تم سے بچہ پیدا نہیں ہوتا،  اس کے باوجود بھی زید کی والدہ  صبر کر کے زید کے والد پاس رہی،  کچھ عرصہ گزرنے کے بعد آخر کار اللہ تعالیٰ نے انہیں اولاد سے نواز دیا،  اب زید کی عمر بارہ 12سال ہوگئی،  پھر ایک دن زید کے والد اور والدہ کے بیچ لڑائی جھگڑا ہوا ، جھگڑے کے درمیان زید کی والدہ نے زید کو یہ ساری باتیں بتادی تو اب زید کے من میں یہ سوال الجھا کہ  کیا اب بھی میرے والد کے نکاح میں میری والدہ ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃ ً   زید کے والد نے  اپنی بیوی (زید کی والدہ) کو لڑائی کے درمیان یہ کہا تھا : ”تم کو طلاق ہے کہ تم سے بچہ پیدا نہیں ہوتا“ تو اس جملہ  سےبیوی پر ایک طلاقِ رجعی واقع ہوگئی تھی، اس کے بعد زید کے والد کو  چوں کہ بیوی کی عدت (پوری تین ماہ واریاں اگر حمل نہ ہو اور حمل کی صورت میں وضع حمل تک) میں رجوع کا حق تھا،    لہذا مذکورہ   جملہ کے کہنے کے بعد  اگر  دونوں میاں بیوی ساتھ رہتے  رہے ہیں اور میاں بیوی والا تعلّق قائم ہوگیاتھا، یا زبانی کہہ دیا تھا کہ میں نے رجوع کر لیا،تو اس سے رجوع ہوگیا تھا، اب دونوں کا نکاح برقرار  ہے۔ البتہ آئندہ کے لیے زید کے والد کو  صرف  دو  طلاق کا  اختیار باقی ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(هي استدامة الملك القائم) بلا عوض ما دامت (في العدة) ... (بنحو) متعلق باستدامة (رجعتك) ورددتك ومسكتك بلا نية لأنه صريح (و) بالفعل مع الكراهة (بكل ما يوجب حرمة المصاهرة) كمس.

 (قوله: بنحو راجعتك) الأولى أن يقول بالقول نحو راجعتك ليعطف عليه قوله الآتي وبالفعل ط، وهذا بيان لركنها وهو قول، أو فعل... (قوله: مع الكراهة) الظاهر أنها تنزيه كما يشير إليه كلام البحر في شرح قوله والطلاق الرجعي لا يحرم الوطء رملي، ويؤيده قوله في الفتح - عند الكلام على قول الشافعي بحرمة الوطء -: إنه عندنا يحل لقيام ملك النكاح من كل وجه، وإنما يزول عند انقضاء العدة فيكون الحل قائماً قبل انقضائها. اهـ. ... (قوله: كمس) أي بشهوة، كما في المنح". 

(3/ 397، كتاب الطلاق، باب الرجعة، ط: سعيد)

وفیہ  ايضا:

"(وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالإجماع) ومنع غيره فيها لاشتباه النسب".

(3/ 409، كتاب الطلاق، باب الرجعة، ط: سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144406101600

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں