بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاقِ رجعی میں عورت کیا کرے؟


سوال

طلاق رجعی عورت کو اللہ کی طرف سے مہلت ہے کہ وہ اپنی اصلاح کرے،اسے کیا کرنا چاہئے؟

جواب

طلاقِ رجعی نہ صرف عورت کے لیے مہلت ہے کہ وہ اپنی اصلاح کرلے، بلکہ اصل میں یہ مرد کے لیے  موقع ہے کہ وہ اپنے فیصلے پر نظرِ ثانی کرسکے اور اس کے لیے رجوع ممکن ہو؛ لہذا  ہر دو فریق کوطلاقِ رجعی کی عدت گزرنے سے پہلے اپنی گزشتہ کوتاہیوں کا جائزہ لینا چاہیے اور اپنی غلطیاں  سدھارنی چاہئیں، ساتھ ہی دوبارہ اکٹھے رہنے کے امکانات  اور تقاضوں پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے، مرد و عورت دونوں کو تقوی اختیار کرنا چاہیے؛ مرد کو اپنے اختیارات کے صحیح اور غلط استعمال کا موازنہ کرنا چاہیے اور اپنے جذبات کے درست طریقے سے  اظہار کی راہ ڈھونڈنی چاہیے،  عورت کو یہ دیکھنا چاہیے کہ اس کی کس بے صبری یا نا شکری نے یہ آفت ڈھا دی  اور اس کے کس غلط طرزِ عمل کا یہ نتیجہ نکلا؛ اور خاص طور پر عورت کے لیے فقہاء نے طلاقِ رجعی کے بعد کے کچھ احکام  لکھے ہیں، جو ذیل میں درج کیے جا رہے ہیں:

  1. مطلقہ رجعیہ اپنے شوہر کے یہاں عدت گزارے گی۔
  2. گھر سے باہر نہیں نکلے گی۔
  3.  سوگ (عدمِ زیب و زینت)نہیں کرے گی۔
  4. بہتر یہ ہے کہ خوب بناؤ سنگھار کرے، خوشبو میں بسے اور شوہر کی آنکھوں کے سامنے رہے؛ تاکہ شوہر کو اس کی طرف رغبت ہو اور وہ رجوع کرے۔ البتہ اگر شوہر کا ارادہ رجوع کا نہ ہو، تو وہ گھر  (یا کمرے)میں داخل ہوتے وقت دروازہ کھٹکھٹا کر، گلا کھنکھار کر، یا  جوتوں سے آواز پیدا  کرکے آئے، تا کہ مطلقہ بیوی اپنے کپڑے وغیرہ درست کر سکے۔

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"(قال) والمعتدة من طلاق رجعي تتشوف وتتزين له لأن الزوجية باقية بينهما، وهو مندوب على أن يراجعها وتشوفها له يرغبه في ذلك فإن كان من شأنه أن لا يراجعها فأحسن ذلك أن يعلمها بدخوله عليها بالتنحنح وخفق النعل كي تتأهب لدخوله".

(باب الرجعة، 6/ 25، ط: دار المعرفة بیروت)

و فيه أيضاً:

"وأما المطلقة طلاقا رجعيا فلا بأس بأن تتطيب وتتزين بما أحبت من الثياب لأن نعمة النكاح والحل ما فاتت بعد لأن الزوج مندوب إلى أن يراجعها والتزين مما يبعثه على مراجعتها فتكون مندوبة إليه أيضا."

(باب اللبس و التطییب، 6/ 59)

و فيه أيضاً:

"(قال)، وإذا طلقها وهي في بيت أهلها أو غيرهم زائرة كان عليها أن تعود إلى منزل زوجها حتى تعتد فيه سواء كان زوجها معها أو لم يكن لأن الواجب عليها المقام في منزل مضاف إليها قال الله تعالى {لا تخرجوهن من بيوتهن} [الطلاق: 1] والإضافة إليها بكونها ساكنة فيه فعرفنا أن المستحق عليها المقام في منزل كانت ساكنة فيه إلى وقت الفرقة."

(باب العدة و خروج المرأة من بیتھا، 6/ 34)

بدائع الصنائع  میں ہے:

"ولا إحداد على المطلقة طلاقا رجعيا؛ لأنه يجب إظهارا للمصيبة على فوت نعمة النكاح، والنكاح بعد الطلاق الرجعي غير فائت بل هو قائم من كل وجه فلا يجب الحداد بل يستحب لها أن تتزين لتحسن في عين الزوج فيراجعها."

(فصل فی أحکام العدۃ، 3/ 209، ط: دار الکتب العلمية)

قفط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411101039

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں