بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق معلق کی ایک صورت / حالت حیض میں طلاق دینا


سوال

میرے شوہر نے مجھے حمل کی حالت میں پانچ سال پہلے ایک طلاق دی اور رجوع کرلیا، دوسری مجھےایک ہفتہ پہلے حالتِ حیض میں دی ،کیا  حیض کی حالت میں طلاق ہوتی ہے؟ اور اس نے یہ شرط رکھی ہے کہ اگر میری اجازت کے بغیر اس گھر سے باہر نکلی تو تیسری بھی ہوگی، لیکن اس میں طلاق کا لفظ نہیں لیا،اب مجھے  بتائیں کہ  رجوع کا کیا طریقہ ہے اور تیسری کی شرط واپس ہوگی؟

جواب

اگر کوئی شخص حالتِ حیض میں طلاق دے دے تو طلاق واقع ہو جاتی ہے ،اگرچہ  حدیث کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے وہ شخص   گناہ گار ہوگا،  حالتِ حیض میں طلاق دینا مکروہِ تحریمی اور ناجائز ہے،  فقہ حنفی میں اس کو "طلاقِ بدعی"  کہا جاتا ہے، یعنی وہ طلاق جو سنت کے خلاف ہے، کیوں کہ رسول اللہ ﷺ نے حالتِ حیض میں طلاق دینے سے منع فرمایا ہے، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے جب لاعلمی میں اپنی بیوی کو حالتِ حیض میں طلاق دے دی تھی تو آپ ﷺ نے انہیں حکم دیا تھا کہ وہ رجوع کر لیں اور پھر اگر چاہیں تو دوبارہ طہر کی حالت میں طلاق دیں،  رجوع کا حکم دینے سے معلوم ہوا  کہ حالتِ حیض میں اگرچہ طلاق دیناجائز نہیں، لیکن اگر طلاق دے دی تو طلاق بہرحال واقع ہوجاتی ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ  میں اگر واقعتًا سائلہ کے شوہر نے سائلہ کو ایک مرتبہ پہلے طلاق دے کر رجوع کیا تھا اور اس کے بعد حیض کی حالت میں دوسری مرتبہ طلاق دی ہے تو سائلہ پر دوسری طلاق بھی واقع ہوچکی ہے،اس کے بعد  سائلہ کے شوہر کا یہ کہنا کہ ’’اگر میری اجازت کے بغیر اس گھر سے باہر نکلی تو تیسری بھی ہوگی ‘‘اس میں اگرچہ طلاق کا لفظ نہیں کہا ،لیکن شوہر کی مراد سیاق و سباق سے طلاق ہی معلوم ہوتی ہے، لہذا تیسری طلاق معلق ہوگئی ہے اور  چوں کہ شوہر پہلے ہی دو طلاقیں دو چکاہے تو اب اس کو چاہیے کہ دوسری طلاق کی عدت میں رجوع نہ کرے اور  عدت مکمل  گزرنے دے ،عدت  گزرنے کے بعد سائلہ اس کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نکل جائےتو قسم پوری ہوجائے گی اور مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی ،عدت کے بعد اور شرط پوری ہونے کے بعد دونوں باہمی رضامندی سے نئے سرے سے نکاح کرلیں ،نکاح کے بعد شوہر کو آئندہ  کےلیے صرف ایک طلاق کا اختیار باقی ہوگا۔

اور اگر  دوسری طلاق کے بعد رجوع کرلیا ہو  اور  تیسری طلاق سے بچنے کے لیے  اب اگر شوہر اس تعلیق کو ختم کرنا چاہتا ہے تو وہ صراحت سے  بیوی سے یہ الفاظ کہہ دے کہ میں نے  تمہیں ہمیشہ کے لیے اس گھر سے نکلنے کی اجازت دے دی، تم جب چاہو   اس گھر سے نکل سکتی ہو تو اس کے بعد بیوی کے اس گھر سے نکلنے سے اس پر طلاق واقع نہیں ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے :

'' (والبدعي ثلاث متفرقة أو ثنتان بمرة أو مرتين) في طهر واحد (لا رجعة فيه، أو واحدة في طهر وطئت فيه، أو) واحدة في (حيض موطوءة) لو قال: والبدعي ما خالفهما لكان أوجز وأفيد (وتجب رجعتها) على الأصح (فيه) أي في الحيض رفعاً للمعصية.

(قوله: وتجب رجعتها) أي الموطوءة المطلقة في الحيض (قوله: على الأصح) مقابله قول القدوري: إنها مستحبة ؛ لأن المعصية وقعت فتعذر ارتفاعها، ووجه الأصح قوله صلى الله عليه وسلم لعمر في حديث ابن عمر في الصحيحين: «مر ابنك فليراجعها»، حين طلقها في حالة الحيض، فإنه يشتمل على وجوبين: صريح وهو الوجوب على عمر أن يأمر، وضمني وهو ما يتعلق بابنه عند توجيه الصيغة إليه، فإن عمر نائب فيه عن النبي صلى الله عليه وسلم  فهو كالمبلغ، وتعذر ارتفاع المعصية لا يصلح صارفاً للصيغة عن الوجوب لجواز إيجاب رفع أثرها وهو العدة وتطويلها ؛ إذ بقاء الشيء بقاء ما هو أثره من وجه فلا تترك الحقيقة، وتمامه في الفتح. (قوله: رفعاً للمعصية) بالراء، وهي أولى من نسخة الدال، ط أي لأن الدفع بالدال لما لم يقع والرفع بالراء للواقع والمعصية هنا وقعت، والمراد رفع أثرها وهو العدة وتطويلها كما علمت ؛ لأن رفع الطلاق بعد وقوعه غير ممكن''.

(رد المحتار3/ 232 ط: سعید)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"إذا كان الطلاق بائناً دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها".

(كتاب الطلاق، فيما تحل به المطلقة وما يتصل به ج:1، ص: 473، ط: ماجديه)

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"ولو تزوجها قبل التزوج أو قبل إصابة الزوج الثاني كانت عنده بما بقي من التطليقات". 

(ج:6، ص: 65، ط: دارالكتب العلميه بيروت)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولو قال لها تو سه ده ونوى الطلاق يقع كذا في خزانة المفتين".

(1/ 380ط:سعید)

فتاوی شامی میں ہے :

"فحيلة من علق الثلاث بدخول الدار أن يطلقها واحدةً ثم بعد العدة تدخلها فتنحل اليمين فينكحها".

(3/ 355ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211201519

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں