میں نے اپنی بیوی کو یہ کہا ہے کہ’’ اگر تو بقرعید سے پہلے میرے گھر آگئی تو تجھ کو تین طلاقیں واقع ہو جائیں گی ‘‘تو برائے مہربانی مجھ کو کوئی ایسا راستہ بتائیں کے وہ یہاں میرے شہر میں میرے پاس آ جائے اور طلاق بھی واقع نہ ہو۔
صورتِ مسئولہ میں جب سائل نے اپنی بیوی کو یہ الفاظ کہے کہ ’’ اگر تو بقر عید سے پہلے میرے گھر آگئی تو تجھ کو تین طلاقیں واقع ہوجائیں گی ‘‘ تو ان الفاظ سے سائل کی بیوی کی تینوں طلاقیں بقر عید سے پہلے سائل کے گھر آنے پر معلق ہوگئیں ہیں ،اگر بقر عید سے پہلے بیوی سائل کے گھر آئے گی تو تینوں طلاقیں واقع ہوجائیں گی،لہذا بقر عید تک سائل کی بیوی سائل کے گھر نہ آئے ،اب یا تو سائل خود اس کےپاس چلاجائے یا اپنے شہر میں اپنے گھر کے علاوہ کسی اور گھر میں اس سے مل لے یا سائل کے شہر میں اس کی بیوی کے کسی قابلِ اعتماد محرم کا گھر موجود ہو تو وہاں بلواکر عید تک قیام کروالے۔
وفي الفتاوى الهندية :
"وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق."
(1/ 420ط:دار الفكر)
وفي الدر المختار وحاشية ابن عابدين :
"(وتنحل) اليمين (بعد) وجود (الشرط مطلقًا) لكن إن وجد في الملك طلقت وعتق وإلالا."
(رد المحتار3/ 355ط:سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144211200058
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن