دو بھائی ہیں جن کے والد صاحب بہت پہلے وفات پاچکے ہیں، ان کے گھر کے قریب کسی اور کی زمین تھی، یہ دونوں اس زمین کو خریدنا چاہتے تھے، ان میں سے ایک کا مالکِ زمین سے قیمت وغیرہ پر تکرار ہوگیا، جب کہ اس وقت دوسرا بھائی بھی موجود نہیں تھا، اس بحث وتکرار میں اس نے کہا مجھے اس سے تین طلاق(یعنی زما ورسخہ درے طلاق دئی)،پھر اس کے بھائی نے یہ زمین خرید لی، اس کا ارادہ یہ تھا کہ بھائی نے چوں کہ طلاق کیا ہے، لہذا میں اپنے لیے خرید لوں گا، پھر جائیدادتقسیم کرتے وقت یہ میرے حصے میں ہی آئے گی، پانچ سال بعد اب دونوں بھائی جائیداد تقسیم کرنا چاہتے ہیں، ابھی تک وہ دونوں اکٹھے رہتے تھے،تو کیا وہی زمین دوسرا بھائی جس نے خریدسے طلاق کیاتھا وہ تقسیم کرتے وقت یہ زمین اپنے حصے میں لے سکتا ہے جب کہ خریدتے وقت اس نے بغیر کسی نیت کے اس طرح طلاق کا لفظ استعمال کیا تھا کہ مجھے (دئ ذ اس زمین سے طلاق (زما پہ درے طلاق طلاق دئ کہ یہ واخلم)؟
صورتِ مسئولہ میں چوں کہ مذکورہ زمین لینے پر طلاق معلق کی گئی تھی اس لیے جب بھی یہ شخص زمین لے گا اس کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوجائیں گی، چاہے بطور حصہ لے یا خریدے، بہرصورت زمین لیتے ہی طلاق واقع ہوجائے گی کیوں کہ تعلیق کے الفاظ مطلق ہیں۔
الفتاوى الهندية (9 / 213):
"وَإِذَا أَضَافَهُ إلَى الشَّرْطِ وَقَعَ عَقِيبَ الشَّرْطِ اتِّفَاقًا".
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144108200836
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن