محترم جناب مفتی صاحب ایک شرعی مسلے کے حوالے سے رہنمائی درکار ہے اگر کسی شوہر نے اپنی بیوی سے یہ کہا کہ آپ فلان رشتہ دار کے گھر چلی گئی تو آپ کا میرا رشتہ ختم، یعنی میری طرف سے اس کے بعد عمر بھر آپ اپنے گھر جاؤگی۔
اب میاں بیوی دونوں شرمندہ ہیں اور چاہتے ہیں کسی طریقے سے اس شرط کو بغیر کسی طلاق اور نکاح جدید کے ختم کیا جائے کیا اس کی کوئی صورت ممکن ہے ؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔
واضح رہے کہ ایک مرتبہ اگر طلاق کو کسی فعل پر معلق کر دیا جائے تو اس کے بعد اس تعلیق کو بغیر کسی طلاق کے ختم نہیں کیا جا سکتا، لہذا صورت مسئولہ میں بیوی اگر مذکورہ رشتہ دار کے گھر جائے گی تو شرط پائی جانے سے اس پر ایک طلاق بائن واقع ہو جائے گی، اس کے بعد دونوں میاں بیوی اگر چاہیں تو شرعی گواہان کی موجودگی میں نئے ایجاب و قبول اور نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں، بشرطیکہ شوہر نے اس سے قبل بیوی کو دو طلاقیں نہ دی ہوں۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"(أما تفسيرها شرعا) فاليمين في الشريعة عبارة عن عقد قوي به عزم الحلف على الفعل أو الترك كذا في الكفاية.
وهي نوعان: يمين بالله تعالى، أو صفته، ويمين بغيره، وهي تعليق الجزاء بالشرط كذا في الكافي".
(كتاب الأيمان،الباب الأول في تفسير الأيمان شرعا وركنها وشرطها وحكمها،2/ 51،ط:رشدية)
وفیہ ایضا:
"ولو قال لها لا نكاح بيني وبينك أو قال لم يبق بيني وبينك نكاح يقع الطلاق إذا نوى".
(كتاب الطلاق، الباب الثاني في إيقاع الطلاق ، الفصل الخامس في الكنايات في الطلاق 1/ 375)
فتاوی دار العلوم دیوبند میں ہے:
"ایک شخص کو کسی دوست نے مجبور کر کے اور یہ کہہ کر کہ یہ نکاح صحیح نہیں ہے طلاقِ معلق لکھ کر دستخط کرائے، اب یہ شرط واپس ہو سکتی ہے یا نہ؟
جواب: شرطِ مذکور واپس نہین ہو سکتی،لقوله عليه السلام: ثلاث جدهن جد وهزلهن جد الحديث"
(کتاب الطلاق، ج:10، ص:59، ط:دار الاشاعت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144306100855
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن