بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق بائن


سوال

میری بہن کی شادی تقریبا سولہ سال پہلے ۱۹۹۱ میں ہوئی تھی۔عرصہ چار سال تک وہ اپنے گھر آباد رہی اور اس کے بطن سے تین لڑکیاں پیدا ہوئیں۔اس کےبعد اس کا میاں باہرملیشیا چلا گیا۔اس کے بعد میری بہن کے سسرال والوں نے اس کے ساتھ برا سلوک شروع کردیا اور میری بہن ہمارے گھر آگئی۔اس کے میاں کا باہر سے ٹیلیفون آیا اور اس نے کہا کہ میرے گھر چلی جاؤ۔میری بہن نے کہا کہ تمہارے بغیر میرا وہاں گذارا نہیں۔ تم آؤگے تو میں جاؤ ں گی۔ اس پر اس کے میاں نے کہا کہ اگر تم نہیں جاتی تو میری طرف سے آزادہو۔اس پر جب ہم نے اس کے میاں سے کہا کہ تم اپنی بیوی کو طلاق دے بیٹھے ہوتو وہ کہنے لگا کہ میرے کہنے کا یہ مطلب نہیں تھا۔اس کے بعد ان لوگوں نے کوئی رابطہ نہ رکھا اور ایک سال گذر گیا۔ہم نے علما سے رابطہ کیا تو انھوں نے بتا یا کہ شرعا تو نکاح ختم ہو چکا ہے۔لیکن ہم نے کسی فساد سے بچنے کیلئے عدالت میں خلع کی درخواست دائر کردی۔عدالت نے اپنی کاروائی پوری کرتے ہوے تین نوٹس دونوں فریقین کوبھجوائے۔وہ کسی تاریخ پر نہ آے اور عدالت نےیک طرفہ ڈگری جاری کردی۔ اس کے بعد کیس یونین کونسل میں چلا گیا۔انہوں نے بھی تین نوٹس دونوں فریقین کو بھجوائے لیکن وہ نہیں آئے۔اور یونین کونسل نےبھی یک طرفہ طور پر طلاق مؤثر ہونے کا سرٹیفیکیٹ جاری کردیا۔ اس دوران ہم نے بہن کیلئے کئی رشتے دیکھے مگر کوئی مناسب رشتہ نہ ملا۔اب تقریبا عرصہ تیرہ سال بعد میری بہن کا میاں پاکستان واپس آیا اور مختلف لوگوں کے ذریعے ہم سے رابطہ کیا اور یہ کہتا ہے میں نے طلاق نہیں دی نیز میری بیوی کو میرے ساتھ بھیجو۔براہ کرم اس معاملے میں قرآن و حدیث روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔

جواب

صورت مسؤلہ میں لفظ rsquorsquoتم آزاد ہوlsquolsquoسے ایک طلاق بائن واقع ہوکرنکاح ختم ہوچکا ہے ،لیکن دوبارہ از سرنو نکاح کرکے ساتھ رہنے کی گنجائش ہے،لہٰذا اگر مذکورہ شوہراوربیوی ایک ساتھ رہنا چاہیں تو تجدیدِ نکاح کرلیں ،جس کی صور ت یہ ہوگی کہ دوگواہوں کی موجودگی میں ایجاب و قبول کر لیں اور مہر بھی نیا مقرر کریں ۔ باقی یونین کونسل کے فیصلے اپنی جگہ مگرشرعاً اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143101200247

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں