اگر کوئی مجبور کرے کہ اپنی بیوی کو طلاق دو، اور وہ نہیں دینا چاہتاہے،لیکن پھروہ حلف اٹھاتا ہے کہ" میں اپنی بیوی کو تین طلاق دیتا ہوں" مگر یہ لفظ بولنے سے پہلے دل میں ان شاء اللہ کہتا ہے، تو کیا اس سے طلاق واقع ہوجائے گی؟
صورتِ مسئولہ میں یہ جملہ " میں اپنی بیوی کو تین طلاق دیتا ہوں" کہنے والے شخص کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوچکی ہے، نکاح ختم ہوچکاہے، اورحرمتِ مغلظہ کے ساتھ اس جملہ کہنے والے کے لیے بیوی حرام ہوچکی ہے،دل میں ان شاء اللہ کہنے سےطلاق واقع ہونے پر کوئی فرق نہیں پڑےگا۔
الدر مع الرد میں ہے:
"(ويقع طلاق كل زوج بالغ عاقل) ولو تقديرا بدائع، ليدخل السكران (ولو عبدا أو مكرها) فإن طلاقه صحيح لا إقراره بالطلاق.وفي البحر أن المراد الإكراه على التلفظ بالطلاق."
(كتاب الطلاق، مطلب في المسائل التي تصح مع الإكراه، ٢٣٦/٣، ط:سعيد)
النتف فی الفتاوی للسغدی میں ہے:
"ولو استثنى فأخفى حتى لم تسمع اذناه فانه ليس باستثناء عند الفقهاء وتطلق امرأته."
(كتاب العدة، ٣٥٢/١، ط:مؤسسة الرسالة)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144507101993
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن