بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو القعدة 1446ھ 22 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

میں تمہیں طلاق۔۔۔ اتنا جملہ کہا اور بیوی نے منہ پر ہاتھ رکھ دیا تو طلاق کا حکم


سوال

 میں اپنی بیوی کے ساتھ سسرال گیا تھا، نکلتے ہوئےبیوی کی والدہ نےاس کو بلایا، اس کے بعد بیوی نے انکار کر دیا کہ وہ میرے ساتھ نہیں آئے گی۔ میں نے کہا: "اگر تم نہیں چلو گی تو میں تمہیں طلاق دے دوں گا"، مگر وہ نہ مانی۔ پھر میں نے غصے میں کہا: "میں تمہیں طلاق..." اور اتنے میں بیوی نے میرے منہ پر ہاتھ رکھ دیاتو میں خاموش ہوگیا۔ اس کے بعد پھر میں نے کہا: "میں تمہیں طلاق دیتا ہوں"۔ اس بات کو تقریباً 20 دن ہو چکے ہیں۔ اب دریافت طلب بات یہ ہے کہ:

1. میرے اس طرز ِعمل سے کتنی طلاقیں واقع ہوئیں؟

2. کیا ابھی رجوع کی گنجائش ہے یا نکاح ختم ہو چکا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کاپہلا جملہ "اگر تم نہیں چلو گی تو میں تمہیں طلاق دے دوں گا"یہ    طلاق کی دھمکی  ہے،اس سے کوئی طلاق واقع  نہیں ہوئی، اور دوسراجملہ"میں تمہیں طلاق..." صرف اتناکہنے پر  منہ پر ہاتھ رکھنے کی وجہ سے  آگے کچھ نہیں کہا، تو اس ناقص جملہ سے بھی کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ،البتہ تیسرا جملہ "میں تمہیں طلاق دیتا ہوں"طلاق  کے لیے صریح  ہے،اس سے ایک طلاق رجعی واقع ہو گئی ہے، چناں چہ سائل کو عدت(تین ماہواری) گزرنے سے پہلے رجوع کا اختیار حاصل ہے ، اگر سائل عدت گزرنے سے پہلےزبانی(مثلاً:یوں کہے کہ"میں نے رجوع کرلیا") یا عملی (بیوی سے ازداجی تعلق یا بوس کنار یاشہوت سے چھو کر)رجوع کر لے تو نکاح حسبِ سابق برقرار رہے گا ، ورنہ عدت گزرنے کے ساتھ ہی نکاح ختم ہوجائے گا ،البتہ اس کے بعد بھی نئے مہر کے ساتھ گواہوں کی موجودگی میں دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں، یاد رہے رجوع کے بعد شوہر دو طلاق کا حق ہوگا۔

         اعلاء السنن میں ہے:

"فنقول: إن المراد من الإغلاق هو إغلاق الفم حیث لایقدر علی  التکلم، ولایمکن له أن یتلفظ  بلفظ الطلاق مفسرًا، وإن تلفظ بشيءٍ یسیرٍ مبهمًا لایحصل المقصود به، فمثل هذا الطلاق لایقع؛ لانه لایقال له عرفًا: إنه طلق إذا لم یفهم لفظ الطلاق  من کلامه ولم یصدر منه التلفظ به حیث یدل علی المقصود".

 (بیان من یصح منه الطلاق ومن لا یصح منه،11/180،ط: إدارۃ القرآن) 

فتاوی شامی میں ہے:

"(هي استدامة الملك القائم) بلا عوض ما دامت (في العدة) ... (بنحو) متعلق باستدامة (رجعتك) ورددتك ومسكتك بلا نية لأنه صريح (و) بالفعل مع الكراهة (بكل ما يوجب حرمة المصاهرة) كمس.

 (قوله: بنحو راجعتك) الأولى أن يقول بالقول نحو راجعتك ليعطف عليه قوله الآتي وبالفعل ط، وهذا بيان لركنها وهو قول، أو فعل... (قوله: مع الكراهة) الظاهر أنها تنزيه كما يشير إليه كلام البحر في شرح قوله والطلاق الرجعي لا يحرم الوطء رملي، ويؤيده قوله في الفتح - عند الكلام على قول الشافعي بحرمة الوطء -: إنه عندنا يحل لقيام ملك النكاح من كل وجه، وإنما يزول عند انقضاء العدة فيكون الحل قائماً قبل انقضائها. اهـ. ... (قوله: كمس) أي بشهوة، كما في المنح".

(‌‌کتاب الطلاق، باب الرجعة، ج: 3، ص: 397، ط: سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالإجماع) ومنع غيره فيها لاشتباه النسب".

(کتاب الطلاق، باب الرجعة، ج: 3، ص: 409، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144611100145

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں