بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق دینے پر مالی جرمانہ کے کا حکم


سوال

میرا نکاح کچھ دن پہلے ہوا، جس میں میرے گھر والوں کی مرضی شامل نہیں تھی، نکاح سے پہلے سب ٹھیک تھا، عین نکاح کے وقت لڑکی والوں نے طلاق دینے پر شرط رکھی کہ طلاق دینے کی صورت میں لڑکی کو پانچ لاکھ ادا کرنے ہوں گے، میں نے لاکھ منع کیا کہ میں ایسی کوئی شرط نہیں لکھوں گا، جس پر انہوں نے کہا کہ آپ اسٹمپ پیپر پر لکھ دے، ہم آپ سے نکاح نامے پر نہیں لکھوارہے ہیں، صرف امی ابو کی تسلی کےلیے پیپر پر لکھ دے، بے حد اصرار پر میں نےمجبوراً پیپر پر شرط لکھ دی، پھر میں نے کہا کہ لڑکی بھی لکھ دے،اس نے بھی یہ بات لکھ دی، اس وقت یہ بھی طے ہوا تھا کہ اس کی فوٹو کاپی میرے پاس بھی ہوگی،مگر اس وقت مانگنا مناسب نہیں سمجھا ،نکاح کے شروع میں تو سب ٹھیک تھا، لیکن دس سے بارہ دن کے بعدمیرے اور لڑکی کےدرمیان شدید لڑائی شروع ہوگئی، ایک بارلڑکی نے خود بھی طلاق مانگی، دوسری بار اس نے خلع لینے تک کہا اور اب وہ بار بار طعنے دیتی ہےکہ تمہارے پاس یہ نہیں وہ نہیں، اور دو تین مرتبہ بول چکی ہے کہ تم سے نکاح کرنا میری سب سے بڑی غلطی تھی،لہذا تم مجھے طلاق دے دو، ابھی تک رخصتی بھی نہیں ہوئی ہے، اور وہو اسٹمپ پیپر لڑکی والوں کے پاس ہے، لڑائی جھگڑوں کے بعد میں بھی علیحدگی پر مجبور ہو چکا ہوں مگر میرے پاس ادا کرنے کے لیے اتنی رقم موجود نہیں ہے، اب ہمارے درمیان اچھی طرح بات چیت نہیں ہوتی، میں نے کئی دفعہ سمجھانے کی کوشش کی  اور کہا کہ یا تو ساتھ نبھائے یا علیحدگی اختیار کرے، جواب میں کہا کہ آپ نے مجھ سے علیحدگی اختیار کرنی ہے تو کر لے، اس پر جب میں نے کہا کہ میں پیپر تیار کر کے علیحدہ ہورہاہوں، تو کہا کہ پانچ لاکھ کا بھی انتظام کریں، اب حقیقت یہ ہے کہ میں انہیں حقِ مہر پورا ادا کرسکتا ہوں، پر وہ اضافی رقم جو طلاق دینے کی صورت سے وابستہ ہےمیں ادا نہیں کر سکتا ہوں، میرے پاس پانچ لاکھ روپے موجود نہیں ہے،میں نے ان سے کئی دفعہ کہا کہ آپ خلع لے لے، تو انہوں نے کہا کہ وہ اسٹمپ پیپر میری بہن کے پاس ہے،   میں نے ان سے کہا کہ آپ سے پانچ لاکھ نہیں لوں گا بلکہ آپ چاہے تو حقِ مہر خلع کی صورت میں بھی لے سکتی ہو، تو انہوں نے کہا کہ نہیں جو اسٹمپ پیپر پر لکھے ہوئے ہیں وہ بھی ادا کرنےہوں گے،میں اس صورتِ حال سے بے حد پریشان ہوں، کیوں کہ میں نے یہ نکاح گھر والوں کی مرضی کے خلاف کیا ہے، انہیں اس بات کا علم بھی نہیں ہے اور اگر علم ہوا تو وہ مجھے قبول نہیں کریں گے، پھر نہ میں ادھر کا رہا اور نہ ادھر کا، لڑکی مجھے طعنے دے رہی ہے، جس کی وجہ سے میرے لیے یہ رشتہ نبھانا مشکل ہے، لیکن میں پانچ لاکھ کی وجہ سے خاموش ہوں، شریعت کی روشنی میں بتائے کہ اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ نکاح میں جو شرائط مقتضی نکاح کے خلاف ہوں وہ  شروطِ فاسد ہ ہیں اس سے نکاح میں کوئی اثر نہیں پڑتا ، لہذا صورتِ مسئولہ میں طلاق دینے کی صورت میں پانچ لاکھ روپے کا مالی جرمانہ ادا کرنے کی شرط شرطِ فاسد ہے، جس کا کوئی اعتبار نہیں ہے اور طلاق کی صورت میں لڑکے یا لڑکی میں سے کسی ایک پر مالی جرمانہ عائد کرنا شرعاً جائز نہیں ہے،  اور نکاح ہو جانے کے بعد فریقین کو  چاہیے کہ وہ طلاق  کی  باتیں کرنے  کے بجائے  نکاح کو باقی ، بامقصد اور پرسکون بنانے کے لیے عملی طور پر کوششیں  کریں، بالفرض اگر نباہ کی کوئی صورت ممکن نہ ہو تو سائل پر طلاق کے بدلے میں صرف مہر لازم ہو گا، قبل الدخول ہے تو آدھا وگرنہ پورا مہر دینا پڑے گا، اضافی جرمانہ نہ لڑکے پر (طلاق دینے کی صورت میں )لازم ہے اور نہ ہی عورت پر (خلع لینے کی صورت) میں لازم ہے۔

رد الحتار  میں ہے :

"(لا بأخذ مال في المذهب)

مطلب في التعزير بأخذ المال (قوله لا بأخذ مال في المذهب) قال في الفتح: وعن أبي يوسف يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال. وعندهما وباقي الأئمة لا يجوز. اهـ. ومثله في المعراج، وظاهره أن ذلك رواية ضعيفة عن أبي يوسف. قال في الشرنبلالية: ولا يفتى بهذا لما فيه من تسليط الظلمة على أخذ مال الناس فيأكلونه."

(كتاب الحدود،‌‌ باب التعزير، ج: 4، ص: 61، ط: رشیدیة)

و فیہ ایضاً :

"إنما (يبطل الشرط دونه) يعني ‌لو ‌عقد ‌مع ‌شرط ‌فاسد ‌لم ‌يبطل ‌النكاح ‌بل ‌الشرط."

(‌‌كتاب النكاح،‌‌ فصل في المحرمات، ج: 3، ص: 53، ط: سعید)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"(وعن عقبة بن عامر قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - ‌أحق ‌الشروط) مبتدأ (أن توفوا به) بالتخفيف ويجوز التشديد بدل من ‌الشروط والخبر (ما استحللتم به الفروج) قال القاضي: المراد بالشروط هاهنا المهر لأنه المشروط في مقابلة البضع، وقيل: جميع ما تستحقه المرأة بمقتضى الزوجية من المهر والنفقة وحسن المعاشرة فإن الزوج التزمها بالعقد فكأنها شرطت فيه، وقيل: كل ما شرط الزوج ترغيبا للمرأة في النكاح ما لم يكن محظورا، قال النووي - رحمه الله -: قال الشافعي: أكثر العلماء على أن هذا محمول على شرط لا ينافي مقتضى النكاح، ويكون من مقاصده كاشتراط العشرة بالمعروف الإنفاق عليها وكسوتها وسكناها، ومن جانب المرأة أن لا تخرج من بيته إلا بإذنه ولا تصوم تطوعا بغير إذنه ولا تأذن غيره في بيته إلا بإذنه ولا تتصرف في متاعه إلا برضاه ونحو ذلك، وأما شرط يخالف مقتضاه كشرط أن لا يقسم لها ولا يتسرى عليها ولا ينفق ولا يسافر بها ونحو ذلك فلا يجب الوفاء به بل يكون لغوا، ويصح النكاح بمهر المثل، وقال أحمد: يجب الوفاء بكل شرط، قال الطيبي - رحمه الله -: فعلى هذا الخطاب في قوله ما استحللتم للتغليب فيدخل فيه الرجال والنساء ويدل عليه الرواية الأخرى ما استحلت به الفروج. (متفق عليه)."

‌‌(باب إعلان النكاح والخطبة والشرط، ج: 5، ص: 2066، ط: دار الفکر بیروت لبنان)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507100257

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں