بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق دینے پر مالی جرمانے کی شرط


سوال

کیا فرماتے ہیں علماءِ کرام ومفتیانِ دین متین درج ذیل مسئلہ کے بارے میں:

کچھ عرصہ سے  ہمارے ہاں شادی میں نکاح کے وقت لڑکی والوں کی طرف سے کچھ شرائط عائد کی جارہی ہیں، جس کی تفصیل یہ ہے کہ مہر کے علاوہ لڑکی کے رشتہ داروں کی طرف سے لڑکے کو کہا جاتا ہے کہ گھریلو ناچاقی کی صورت میں اگر طلاق کی نوبت آتی ہے تو لڑکی کو ایک لاکھ  یا دو لاکھ یا کوئی بھی رقم دینی ہوگی،  اس میں اس بات کی تخصیص نہیں کی جاتی ہے کہ آیا اگر ناچاقی  کی صورت حال لڑکی کی طرف سے ہو یا لڑکے کی طرف سے۔اب اگر اس طرح کی کوئی نوبت آتی ہے کہ گھریلو ناچاقی پیدا ہو تو لڑکا پیسے نہ ہونے کی وجہ سے کوئی فیصلہ نہیں کرپاتا اور  نہ چاہتے ہوئے بھی بیوی کے ساتھ رہنا پڑتا ہے۔ یہاں پر یہ بات بھی واضح کردیناچاہتا ہوں کہ  ہمارے معاشرے میں طلاق کی شرح بہت کم ہے، اور الحمدللہ اس کی طرف بات نہیں جاتی، لیکن لڑکے کو اس کا مقروض کردینا کہ نکاح کے وقت ہی اس پر یہ ذمہ داری لگادی جائے اور پھر وہ لڑکی کو اس کی کسی غلطی پر نہ ڈانٹ سکے شرعاً کیسا ہے؟

اللہ  تعالیٰ  نے اس  دین کو فطرت  کے مطابق بنایا ہے  اور  اس  میں کسی قسم کی تنگی نہیں رکھی اور ہر شخص کو اس کا جائز حق دیا ہے،  لیکن کیا لڑکی والوں کی طرف سے اس طرح کا مطالبہ کرنا جائز ہے یا نہیں؟  بندہ نے کچھ لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اس طرح کرنا عین  نکاح کے وقت بے برکتی اور اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا سبب بن سکتا ہے؛  کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے نکاح کو ایک مقدس اور پاکیزہ رشتہ بنایا ہے اور اس طرح شروع ہی میں شرط لگاکر اس کو گندہ نہیں کرنا چاہیے۔

آپ حضرات اس بارے میں کیا فرماتے ہیں کہ اس طرح کرنا شریعتِ مطہرہ کی رو سے کیسا ہے؟ آیا اس طرح کی کوئی شرط رکھی جاسکتی ہے یا نہیں؟ ازراہِ کرم شریعت مطہرہ کی روشنی میں مفصل جواب عنایت فرمائیں ۔ 

جواب

نکاح کا مقصد مقدس و پاکیزہ رشتے  کے  ساتھ  زندگی گزارنا ہے، اگر لڑکی اور لڑکے  کے خاندان والے گھر بسانے کے لیے پرعزم ہیں تو انہیں طلاق اور اس کی شرائط  کی ضرورت نہیں ہونی  چاہیے،  خدانخواستہ اگرنیت  میں فتور ہوتو  پھر  لگا سکتے ہیں، لیکن مالی  جرمانہ  کی شرط لگانا (یہ شرط لگانا کہ لڑکے نے طلاق دی تو وہ مثلًا ایک لاکھ روپے دے گا) درست نہیں ہے، بلکہ فریقین کو  چاہیے کہ وہ طلاق  کی  باتیں کرنے  کے بجائے  نکاح کو باقی ، بامقصد اور پرسکون بنانے کے لیے عملی طور پر کوششیں اور کردار ادا کریں۔  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143101200257

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں