بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق دے دوں گا کہنے سے طلاق کا حکم


سوال

 میں نے کچھ گھریلو معاملات کی وجہ سے فون کے ذریعہ اپنی بیوی کو کہاکہ:" میں تمہیں طلاق دے دوں گا" اور اس کے بعد بیوی نے فوراً موبائل فون رکھ لیا اور کال ختم ہوگئ تھی،اب اس کا حل بتائیں کہ کیا اس صورت میں طلاق ہوئی ہے یا نہیں؟میری بیوی بھی اس بات کو تسلیم کرتی ہیں کہ میں نے مذکورہ بالا الفاظ کہے تھے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً سائل نے اپنی بیوی کو فون میں یہ کہا تھاکہ" میں تمہیں طلاق دے دوں گا"  اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہا تھا تو اس سے سائل کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ہے، کیونکہ یہ الفاظ شرعا آئندہ مستقبل میں طلاق دینے کی دھمکی کے ہیں اور دھمکی کے الفاظ سے طلاق واقع نہیں ہوتی ،سائل اور اس کی بیوی کا نکاح بدستور قائم ہے،البتہ سائل کو طلاق کے الفاظ زبان سے نکالنے میں احتیاط کرنی  چاہیے۔

"العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية"میں ہے:

"صيغة ‌المضارع لا يقع بها الطلاق إلا إذا غلب في الحال كما صرح به الكمال بن الهمام."

(كتاب الطلاق،ج:1،ص:38،ط:دار المعرفة)

"البحرالرائق" میں ہے:

" وليس منه أطلقك بصيغة المضارع."

(کتاب الطلاق،باب ألفاظ الطلاق،ج:3،ص:271،:دار الكتاب الإسلامي)

"فتاویٰ شامی" میں ہے:

"أن التهديد بالطلاق في معنى عرض الطلاق عليها؛ لأن قوله أطلقك إن فعلت كذا بمنزلة قوله: أبيع عبدي هذا ."

(کتاب العتق،فرع قال أحد شريكين للآخر بعت منك نصيبي،ج:3،ص:669،ط:سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144407101404

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں