بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1445ھ 09 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق دینے کا احسن طریقہ اور بچے کی پرورش کا حق


سوال

میری شادی 15 سال قبل ہوئی تھی، جس سے میرا بیٹا 11 سال کا ہے، میری ذہنی ہم آہنگی نہیں ہو سکی، جس کی وجہ سے بیوی اپنی ماں کے گھر نو سال قبل چلی گئی تھی، اس دوران ازدواجی تعلق بھی نہیں ہے، زیور وغیرہ بھی لے گئی، اس کا بھی حکم بتا دیں۔ میں نے اپنے طور پر بہت زیادہ کوشش کی مگر بد قسمتی سے وہ میرے پاس نہیں آئی، اسی دوران میرے ماں باپ کا انتقال بھی ہو گیا، مگر وہ نہ تعزیت میں آئی اور نہ ہی رابطہ کیا،  اب میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اس کو طلاق دے دی جائے، جس کے لیے مجھے آپ کی راہ نمائی کی ضرورت ہے، میرا بیٹا اس وقت گیارہ سال کا ہو گیا ہے اور وہ اپنی ماں کے پاس ہے، شرعی طور پر میں اس کے حقوق کے لیے کیا کر سکتا ہوں؟ اور ہمارا مذہب اس بارے میں کیا کہتا ہے؟ تا کہ سارے معاملات خوش اسلوبی سے طے ہو سکیں۔

جواب

اولاً تو اب بھی نباہ کی ہی کوشش کی جائے، اگر کسی کی فہمائش یا کسی بھی طریقے سے بات بن سکتی ہو تو اس سے  دریغ نہ کیا جائے، لیکن اگرنباہ اورصلح کی کوئی صورت نہ ہو اورطلاق کے سواکوئی چارہ ہی نہ رہے تو طلاق دینے کابہترطریقہ یہ ہے کہ عورت کوپاکی کی حالت میں ایک طلاق رجعی دے دی جائے،ایک طلاق کے بعد عدت کے اندراگرچاہیں تورجوع کرلیں اور رجوع نہ کرناچاہیں تو عدت گزرنے کے بعد عورت آزادہوگی،وہ کسی اورسے نکاح کرناچاہے تو درست ہوگا۔ اس کو شریعت میں" طلاق احسن" کہتے ہیں۔ایک طلاق رجعی کے بعد عورت کی عدت گزرجائے پھرصلح کی کوئی صورت نکل آئے تو نئے مہر اور شرعی گواہوں کی موجودگی میں دوبارہ نکاح بھی ہوسکتاہے۔ایسی صورت میں آئندہ دو طلاقوں کا حق حاصل ہوگا۔

بیک وقت تین طلاقیں دینا شرعاًسخت ناپسندیدہ ہے، اس لیے بیک وقت تین طلاقیں نہ دی جائیں۔ لیکن اگر تین طلاقیں ایک ساتھ دے دی جائیں تو  بھی واقع ہوجاتی ہیں،اورتین طلاق کے بعد رجوع کی گنجائش بھی نہیں رہتی۔

باقی سائل کے بیٹے کی پرورش سے متعلق حکم یہ ہے کہ سات سال کی عمر کے بعد باپ کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ بیٹے کو اپنی پرورش میں لے لے، لہذا سائل اگر اپنے بیٹے کو لینا چاہتا ہے تو شرعاً اس کو یہ حق حاصل ہے اور وہ  اِس کے لیے قانونی چارہ جوئی بھی کر سکتا ہے۔

زیور سے متعلق تفصیل یہ ہے کہ  جو  زیور لڑکے والوں کی طرف سے  بیوی کو دیا جاتا ہے،اگر اس کے دیتے وقت  سسرال والوں نے اس بات  کی صراحت کی تھی کہ یہ  بطورِ عاریت یعنی صرف  استعمال کرنے کے لیے ہیں  تو پھر یہ  زیورات   لڑکے والوں کی ملکیت ہوں گے، اور  اگر سسرال  والوں  نے ہبہ ، گفٹ اور  مالک بناکر دینے کی صراحت کردی تھی تو  پھر ان زیورات    کی  مالک لڑکی ہوگی، اگر اس کے دیتے  وقت کوئی صراحت نہ کی ہو تو  اس میں شوہر کے خاندان کے عرف کا اعتبار ہوگا، اگر ان کے ہاں بطورِ ملکیت دینے کا رواج ہو تو  وہ بیوی کی ملکیت شمار  ہوگا، اگر عاریتًا  دینے کا رواج ہوتو بیوی کی ملکیت نہیں ہوگا   اور  اگر لڑکے والوں کے ہاں کوئی عرف نہ ہو تو عرفِ عام کا اعتبار کرتے ہوئے یہ زیور   گفٹ سمجھا جائے گا اور لڑکی کی ملکیت ہوگا، پھر جس صورت میں زیورات بیوی کی ملکیت  ہوں اس صورت میں  سائل کو اس کے مطالبہ کا حق نہیں ہو گا اور جس صورت میں زیورات لڑکے والوں کی ملکیت ہوں اُس صورت میں سائل کو وہ زیورات مانگنے کا حق حاصل ہو گا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"أحق الناس بحضانة الصغير حال قيام النكاح أو بعد الفرقة الأم إلا أن تكون مرتدةً أو فاجرةً غير مأمونة، كذا في الكافي ... وإن لم يكن له أم تستحق الحضانة بأن كانت غير أهل للحضانة أو متزوجةً بغير محرم أو ماتت فأم الأم أولى من كل واحدة ... والأم والجدة أحق بالغلام حتى يستغني، وقدر بسبع سنين، وقال القدوري: حتى يأكل وحده، ويشرب وحده، ويستنجي وحده. وقدره أبو بكر الرازي بتسع سنين، والفتوى على الأول. والأم والجدة أحق بالجارية حتى تحيض. وفي نوادر هشام عن محمد - رحمه الله تعالى-: إذا بلغت حد الشهوة فالأب أحق، وهذا صحيح. هكذا في التبيين... وإذا وجب الانتزاع من النساء أو لم يكن للصبي امرأة من أهله يدفع إلى العصبة فيقدم الأب، ثم أبو الأب، وإن علا". 

(1/ 541/رشیدیہ)

فتاوی شامی میں ہے:

’’(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء، وقدر بسبع، وبه يفتى؛ لأنه الغالب‘‘.

 (3/566، باب الحضانۃ، ط: سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"قلت: ومن ذلك ما يبعثه إليها قبل الزفاف في الأعياد والمواسم من نحو ثياب وحلي، وكذا ما يعطيها من ذلك أو من دراهم أو دنانير صبيحة ليلة العرس ويسمى في العرف صبحة، فإن كل ذلك تعورف في زماننا كونه هدية لا من المهر، ولا سيما المسمى صبحة، فإن الزوجة تعوضه عنها ثيابها ونحوها صبيحة العرس أيضاً".

(3/ 153،  کتاب النکاح، باب المهر، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100653

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں