بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

12 ذو القعدة 1445ھ 21 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق دینے کے جرمانہ میں لڑکے سے رقم وصول کرنا


سوال

ایک لڑکا جس پر روحانی اثرات تھے، حافظ قرآن تھا، علم کے حصول کے لیے ابتدائی درجہ کتب میں پڑھتا تھا، کسی نے جادو سحر کی وجہ سے غلط راستہ پر لگایا، علم حاصل کرنا چھوڑ دیا، داڑھی کاٹی، غیراسلامی لباس پہنا، ان ہی ایام میں اس کی شادی کی گئی، چند دنوں بعد میاں بیوی کے دورانِ گفتگو لڑکے کے منہ سے طلاق کے الفاظ نکلے، ایک مجلس میں تین طلاق دے دی، الفاظ یہ تھے: تو طلاق ہے، تو طلاق ہے، تو طلاق ہے، نا سمجھی کی وجہ سے چھ سال ساتھ رہے، لڑکے کو جب سمجھ آیا اور اثرات کم ہو گئے تو بیوی کو اپنے والدین کے گھر بھجوا دیا اور جدائی ہو گئی، اب لڑکی کے والدین نے لڑکے سے جبراً دو لاکھ روپے لیے، اور لڑکی کا حق مہر اس کو پورا مل چکا ہے، اب دریافت یہ کرنا ہے کہ دو لاکھ روپے لڑکی کے والدین کے لیے شرعاً لینا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں لڑکی کے والدین نے جبراً جو دو لاکھ روپے لڑکے سے لیے ہیں یہ رقم طلاق دینے کے جرمانہ کے طور پر لی گئی ہے، اور مالی جرمانہ عائد کرنا شرعاً جائز نہیں ہے، لہذا لڑکی کے والدین پر لازم ہے کہ وہ یہ رقم واپس کر دیں ورنہ گناہ گار ہو ں گے، نیز طلاق کے بعد میاں بیوی جو چھ سال تک ایک ساتھ رہتے رہے اس پر توبہ و استغفار کی جائے تا کہ آخرت میں پکڑ نہ ہو۔

فتاوی شامی میں ہے:

"والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال".

( كتاب الحدود، باب التعزير، جلد:4، صفحہ:62، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310101214

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں