بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق دینے میں عجلت سے کام نہیں لینا چاہیے


سوال

میرے بہنوئی نے میرے بہن کی کمزوریاں تحریر کر کے طلاق کے جواز کا فتوی آپ سے لیا ،استفتاء اور جواب استفتاء منسلک ہے ،اب پوچھنا یہ ہے کہ بہنوئی نے درحقیقت صحیح مرض کی تشخیص اور علاج کے فہم میں کوتاہی کی ہے ،اس معاملہ میں اگر علاج کامیاب ہوجاتا ہے تو نباہ کی صورت ممکن ہے ،اور علاج مکمل ہونے سے قبل طلاق دینا نا انصافی اور عجلت کا فیصلہ ہوگا ،برائے مہربانی اس معاملہ میں رہنمائی فرمائیں کہ علاج مکمل ہونے پہلے طلاق دینا جائز ہے یا نہیں ،نیز حکیموں اور ڈاکٹروں نے بتایا ہے کہ اس کا علاج ممکن ہے ،شفا ہو جائیگی ،اور ہمارے پاس ہسپتال کی رپوٹس بھی موجود ہے ۔ 

جواب

واضح رہے کہ منسلکہ فتوی میں مطلقاً  طلاق کے جواز  کا  فتوی نہیں دیا گیا تھا ، بلکہ طلاق کے جواز کو علاج  اور نباہ  کے ناممکن  ہونے کے ساتھ مشروط   رکھا   گیا  تھا ،نیز اس بات کی بھی وضاحت کردی گئی تھی کہ طلاق، اللہ کے ہاں حلال ہونے کے  باوجود بھی  ناپسندیدہ ہے ؛ لہذا صورت مسئولہ میں اگر ڈاکٹر حضرات علاج  کو ممکن بتاتے ہیں اور علاج کے بعد نباہ کی توقع بھی  ہے    تو ایسی صورت میں  شوہرکے لیے بہتر ہے کہ   اہلیہ کے علاج کے مکمل ہونے تک   طلاق دینے  میں عجلت سے کام نہ لے ۔

مشكوة المصابيح ميں هے:

 وعن ابن عمر أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «‌أبغض ‌الحلال إلى الله الطلاق» . رواه أبو داود

(كتاب النكاح ،باب الخلع و الطلاق ،ج:2،ص:978،ط:المكتب الاسلامي)

الفتاوی الہندیہ میں  ہے:

وأما وصفہ فہو أنہ محظور نظراً إلی الأصل، ومباح نظراً إلی الحاجۃ۔

( کتاب الطلاق ،ج:1،ص:348،ط:رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100049

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں