بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق بالکتابت کا حکم


سوال

میری بیوی اس بار روزہ، گزارنے ماں باپ کے پاس کراچی گئی،میری بیوی کے ساتھ میرا تعلق بہت اچھا ہے ،ہم دونوں کے درمیان جو بھی لڑائی جھگڑا ہوتا، کمرے کی حد تک ہوتا، ہم آپس میں جھگڑا سلجھا دیتے تھے،ہر قسم کی آسائش گھر میں موجود ہے ، خیر میری بیوی ماں باپ کے پاس روزہ گزار چکی تو عید  کے دوسرے دن، اچانک مجھے طلاق کے پیپرٹی سی ایس کر دیے، میں نے بیوی سے بات کی، اس نے بس اتنا کہا’’ مجھے چھوڑ دو ‘‘اور کال بند کر دی،میں بہت خفا ہوا، خیر میں ٹرین سے کراچی روانہ ہوا،اپنی بہن اور ماں کو لے کر،ان کے گھر پہنچا، تو  وہ کہنے لگے کے تمہاری بیوی پشاور چلی گئی ہے اپنے والد کے ساتھ،میں حیران رہ گیا کہ مجھ سے پوچھے بغیر وہ کیسے چلی گئی،پھر اس کے تایا نے زبردستی میرے سے طلاق کے پیپر پر سائن لے لئے اور دھمکیاں دینے لگے، میں نے نہ چاہتےہوئے بھی سائن کر دیے، پیپر پر پرنٹ ہوا تھا ،تین بار طلاق کا،میں نے بس  اس کو دیکھا،منہ سے  کچھ نہ بولا ۔

مجھے بتایئے کہ میں نے طلاق پوری دے دی ہے یا پھر ایک بار یہ طلاق ہوگی ؟

تنقیح:زبردستی اور دھمکی کس نوعیت کی تھی،دھمکی کے الفاظ کیا تھے؟اور اگر سائل ان کی دھمکی کو خاطر میں نہ لاتا اور طلاق نہ دیتاتو سائل کو کیا خطرہ تھا؟وہ سائل کے ساتھ کیا کرتے؟پوری وضاحت کے ساتھ سوال لکھا جائے!

جوابِ تنقیح:اس نوعیت کی دھمکیاں تھیں جیسے میری جان کو خطرہ ہواور’’اگر طلاق نہ دی تو بہت برا انجام ہوگا‘‘جیسےالفاظ استعمال ہو رہے تھے۔

جواب

واضح رہے کہ اگر کسی شخص کو طلاق دینے پر اس طرح مجبور کیا جائےکہ  مطلوبہ کام نہ کرنے پر جان لینے کی یا کسی عضو کو تلف کرنے کی دھمکی دی جائے اور اس شخص کو اس بات کا یقین یا ظنِ غالب ہو کہ اگر میں نے یہ کام نہ کیا تو واقعی یہ مجھے قتل کردے گا یا میراکوئی عضوضائع کردے گااور اسی حالت میں وہ مجبور ہوکر طلاق نامہ لکھ دے یا اس پر دستخط کردے،تو اس سے طلاق نہیں ہوتی،بصورتِ دیگریعنی اگر دھمکی اس درجہ کی نہ ہو تویہ شرعی جبر و اکراہ میں شمار نہیں،اس صورت میں طلاق نامہ لکھنے یا  اس پر دستخط کرنے سےطلاق واقع ہوجاتی ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگرواقعۃً  سائل کو جان سے ماردینے کی یا عضو ضائع کردینے کی دھمکی دی گئی تھی اور اس کو یقین تھا کہ اگر  وہ بیوی کو طلاق نہ دے گا تو بیوی کے میکہ والے اس کو قتل کردیں گے یا عضو ضائع کردیں گے،اور اسی حالت میں مجبورہوکر اس نے طلاق نامے پر دستخط کردیئے تو اس کی بیوی کو طلاق نہ ہوگی،بصورتِ دیگر اگر اس کو قتل کردینے کی یا عضو ضائع کردینے کی دھمکی نہیں دی گئی تھی،بلکہ اس نے اپنے خیال کے مطابق یہ سمجھ لیا کہ وہ مجھے قتل کردیں گے اور اس نے طلاق نامہ پر دستخط کردیئےتو اس صورت میں طلاق واقع ہوجائےگی۔

"رد المحتار"میں ہے:

"فلو أكره على أن يكتب طلاق امرأته فكتب لا تطلق لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة ولا حاجة هنا."

(ص:٢٣٦،ج:٣،كتاب الطلاق،ط:ايج ايم سعيد)

"الفتاوي الهندية"میں ہے:

"رجل أكره بالضرب والحبس على ‌أن ‌يكتب طلاق امرأته فلانة بنت فلان بن فلان فكتب امرأته فلانة بنت فلان بن فلان طالق لا تطلق امرأته كذا في فتاوى قاضي خان."

(ص:٣٧٩،ج:١،کتاب الطلاق،الباب الثانی،الفصل السادس،ط:دار الفکر،بیروت)

وفيه ايضا:

"ويعتبر في الإكراه معنى ‌في ‌المكره ومعنى ‌في ‌المكره ومعنى فيما أكره عليه ومعنى فيما أكره به، فالمعتبر ‌في ‌المكره تمكنه من إيقاع ما هدد به، فإنه إذا لم يكن متمكنا من ذلك فإكراهه هذيان، وفي المكره المعتبر أن يصير خائفا على نفسه من جهة المكره في إيقاع ما هدد به عاجلا؛ لأنه لا يصير ملجأ محمولا طبعا إلا بذلك، وفيما أكره به أن يكون متلفا أو مزمنا أو متلفا عضوا أو موجبا غما بعدم الرضا، وفيما أكره عليه أن يكون المكره ممتنعا منه قبل الإكراه."

(ص:٣٥،ج:٥،کتاب الإكراه،الباب الأول،ط:دار الفکر،بیروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144410101092

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں