ایک شخص کا کسی ساتھی کے ساتھ چاول کا کاروبار تھا،وہ چاول اور مصالحہ اس کو دے کر پیسے لیتاتھا،ایک مرتبہ پیسےکی وصولی کے لیے اس کو فون ملا رہا تھا، اتفاق سے اس نے تاخیر سے فون اٹھایا ،اس نے غصے میں آکر کہا:"آپ کے ساتھ آئندہ میں نے لین دین کی، تو میری بیوی پر تین طلاق" ،پھر کچھ عرصہ بعدحالف اور اس شخص نے مل کر ایک پلاٹ کا معاملہ کیا،لیکن دوسرے شخص کے ساتھ، حالف اور اس كا ساتھی دونوں مشتری ہيں اور پلاٹ کسی اور کا ہے یعنی بائع ان دونوں کے علاوہ ہے ،لیکن اس شخص نے اس حالف کی اجازت سے اس حالف کے لیے آگےدوسرے شخص کے ساتھ معاملہ کیاخود اپنے آپ کو اس بیع میں شامل کیا، لیکن بطور مشتری نہ کہ بطور بائع ،حالف کا قسم کھانے کے وقت اس شخص کے ساتھ صرف چاول کا کاروبار تھااور قسم کے وقت نیت بھی صرف اس چاول والے کاروبار کی تھی،کیا چاول کے علاوہ معاملہ کرنے سے حالف کی بیوی کو طلاق واقع ہوجائے گی؟
صورتِ مسئولہ میں سائل نے اپنی بیوی کی طلاق کو مذکورہ شخص کے ساتھ لین دین پر معلق کیا تھا،اور حالف اور مذکورہ شخص دونوں نے مل کر کسی اور ساتھی کے ساتھ پلاٹ کالین دین کیا ہے،حالف نے مذکورہ شخص کے ساتھ کسی قسم کالین دین نہیں کیا، لہذا حالف کی بیوی پر طلاق واقع نہیں ہوئی،البتہ آئندہ جب بھی حالف مذکورہ شخص کے ساتھ کسی قسم کا لین دین کرے گا،تو حالف کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوجائیں گی۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(وتنحل) اليمين (بعد) وجود (الشرط مطلقا) لكن إن وجد في الملك طلقت وعتق وإلا لا."
(كتاب الطلاق، باب التعليق، 355/3، ط: سعید)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق."
(كتاب الطلاق، الباب الرابع في الطلاق بالشرط، الفصل الثالث في تعليق الطلاق بكلمة إن وإذا وغيرهما، 420/1، ط: دارالفکر)
البحر الرائق میں ہے:
"إن دخلت الدار فأنت طالق وطالق وطالق، تعلق الكل بالشرط بالإجماع حتى لا يقع شيء قبل دخول الدار، فإذا دخلت الدار قبل الدخول بها."
(كتاب الطلاق، فصل في شرائط ركن الطلاق وبعضها يرجع إلى المرأة، 138/3، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144511101997
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن