بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق بائن کے الفاظ استعمال کیے


سوال

یہ الفاظ شوہر نے اپنی بیوی کے بھائی کے فون پر مسیج کیا ،She is not at all related to me , she has left my home 4 years back. And I don’t wanna talk about her at this moment, she to no more my wife ١) کیا مذکورہ الفاظ سے طلاق واقع ہو جاے گی ؟ ٢) یہ مسیج تین ماہ پرانا ہے تو کیا بیوی طلاق واقع ہونے اور رجوع نہ ہونے کی صورت میں عدت گذارے گی؟

جواب

صورت مسئولہ میں شوہر نے بیوی سے متعلق  جو  انگریزی زبان کے الفاظ استعمال کیے ہیں جن کا مطلب ہے "وہ اب میری بیوی نہیں ہے ،اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے "صریح طلاق کے نہیں ہیں ،بلکہ طلاق کے ان الفاظ میں سے ہے کہ جس سے طلاق کی نیت کے بغیر طلاق واقع نہیں ہوتی؛لھذا اگران الفاظ سے شوہر کی نیت طلاق کی  تھی تو  بیوی پر ایک طلاقِ بائن واقع ہوکر نکاح ختم ہوگیا،  اب اگر میاں بیوی باہمی رضامندی سے دوبارہ ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو نئے مہر اور گواہوں کی موجودگی میں تجدیدِ نکاح کرکے ساتھ رہ سکتے ہیں ، اور آئندہ کے لیے(اگر شوہر نے اس سے پہلے طلاق نہیں دی) شوہر کو دو طلاقوں کا اختیار حاصل ہوگا۔ اور اگر اس جملہ سے شوہر کی طلاق کی نیت نہیں تھی تو اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق  میں ہے:

"(قوله: وتطلق بلست لي بامرأة أو لست لك بزوج إن نوى طلاقا) يعني وكان النكاح ظاهرا وهذا عند أبي حنيفة لأنها تصلح لإنشاء الطلاق كما تصلح لإنكاره فيتعين الأول بالنية وقالا لا تطلق، وإن نوى لكذبه ودخل في كلامه ما أنت لي بامرأة وما أنا لك بزوج ولا نكاح بيني وبينك وقوله: صدقت في جواب قولها لست لي بزوج كما في المحيط وخرج عنه لم أتزوجك أو لم يكن بيننا نكاح ووالله ما أنت لي بامرأة وقوله: لا عند سؤاله بقوله ألك امرأة وقوله: لا حاجة لي فيك كما في البدائع ففي هذه الألفاظ لا يقع، وإن نوى عند الكل ولكن في المحيط ذكر من الوقوع قوله لا عند سؤاله قال: ولو قال: لا نكاح بيننا يقع الطلاق، والأصل أن نفي النكاح أصلا لا يكون طلاقا بل يكون جحودا ونفي النكاح في الحال يكون طلاقا إذا نوى وما عداه فالصحيح أنه على هذا الخلاف قيد بالنية لأنه لا يقع بدون النية اتفاقا لكونه من الكنايات ولا يخفى أن دلالة الحال تقوم مقامها حيث لم يصلح للرد، والشتم ويصلح للجواب فقط وقدمنا أن الصالح للجواب فقط ثلاثة ألفاظ ليس هذا منها فلذا شرط النية للإشارة إلى أن دلالة الحال هنا لا تكفي وأشار بقوله: تطلق إلى أن الواقع بهذه الكناية رجعي وقيدنا بظهور النكاح لأنه لو قال: ما أنت لي بزوجة وأنت طالق لا يكون إقرارا بالنكاح لقيام القرينة المتقدمة على أنه ما أراد بالطلاق حقيقته كما في البزازية أول كتاب النكاح فالنفي لا يقع به بالأولى."

(کتاب الطلاق،باب الکنایات فی الطلاق،3/330،ط:دارالکتاب الاسلامی)

فتاوٰی ہندیہ میں ہے:

"ولو قال: ما أنت لي بامرأة أو ‌لست ‌لك ‌بزوج ونوى الطلاق يقع عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - وعندهما لا يقع."

(کتاب الطلاق،الفصل الخامس في الكنايات في الطلاق،1/375،ط:درالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144412101188

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں