بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والدین کے حکم پر طلاق دینا


سوال

والدین بیٹے کو طلاق دینے کا حکم دیں تو ایسی صورت میں طلاق دے دینی چاہیے؟

جواب

والدین اگر کسی  معتبر شرعی  وجہ کے بغیر بیوی کو طلاق دینے کو کہیں یا  والدین کسی  معقول وجہ سے طلاق کا کہیں لیکن طلاق دینے کی صورت میں  سائل  کو سخت  تکلیف میں پڑنے کا اندیشہ ہو ،  تو ایسی صورت میں سائل پر والدین کی اطاعت واجب نہیں ہے اور اپنی بیوی کو اپنے  نکاح  میں  رکھ سکتا ہے۔ 

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"(«وعن ابن عمر -رضي الله عنهما - قال: كانت تحتي امرأة أحبها، وكان عمر يكرهها، فقال لي: طلقها، فأبيت)، أي: امتنعت لأجل محبتي فيها (فأتى عمر رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكر ذلك له، فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: طلقها» ) أمر ندب أو وجوب إن كان هناك باعث آخر (رواه الترمذي وأبو داود) ، وكذا النسائي وابن ماجه وابن حبان في صحيحه، وقال الترمذي حديث صحيح نقله ميرك عن المنذري."

(کتاب  الآداب  باب البر و الصلۃ ج نمبر ۷ ص نمبر ۳۰۹۷،دار الفکر)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"عن معاذ قال: «أوصاني رسول الله صلى الله عليه وسلم بعشر كلمات، قال: " لاتشرك بالله شيئًا و إن قتلت وحرقت، و لاتعقن والديك و إن أمراك أن تخرج من أهلك ومالك، و لاتتركن صلاةً مكتوبةً متعمّدًا؛ فإنّ من ترك صلاةً مكتوبةً متعمّدًا فقد برئت منه ذمة الله، و لاتشربنّ خمرًا فإنّه رأس كل فاحشة، و إيّاك و المعصية؛ فإنّ بالمعصية حلّ سخط الله، و إيّاك والفرار من الزحف و إن هلك الناس، و إذا أصاب الناس موت و أنت فيهم فاثبت. (أنفق على عيالك من طولك، و لاترفع عنهم عصاك أدبًا و أخفهم في الله»". رواه أحمد.

قال ابن حجر: شرط للمبالغة باعتبار الأكمل أيضا أي: لا تخالف واحدا منهما، وإن غلا في شيء أمرك به، وإن كان فراق زوجة أو هبة مال، أما باعتبار أصل الجواز فلا يلزمه طلاق زوجة أمراه بفراقها، وإن تأذيا ببقائها إيذاء شديدا؛ لأنه قد يحصل له ضرر بها، فلا يكلفه لأجلهما؛ إذ من شأن شفقتهما أنهما لو تحققا ذلك لم يأمراه به فإلزامهما له مع ذلك حمق منهما، ولا يلتفت إليه، وكذلك إخراج ماله (ولا تتركن صلاة مكتوبة) أي: مفروضة."

(کتاب الایمان ،باب الکبائر  و علامات النفاق ج نمبر  ۱ ص نمبر  ۱۳۲،دار الفکر)

بہشتی زیور میں ہے:

’’سو، جو امر شرعًا واجب ہو اور نہ ممنوع ہو، بلکہ مباح بلکہ مستحب ہو اور ماں باپ اس کے کرنے یا نہ کرنے کو کہیں تو اس میں تفصیل ہے، دیکھنا  چاہیے کہ اس امر کی اس شخص کو ایسی ضرورت ہے کہ بدون اس کے تلکیف ہوگی، مثلًا غریب آدمی ہے پاس پیشہ نہیں بستی میں کوئی صورت کمائی کی نہیں، مگر ماں باپ نہیں جانے دیتے،  یا یہ کہ اسے  ضرورت نہیں ، اگر اس درجہ ضرورت ہے تو اس میں ماں باپ کی اطاعت ضروری نہیں ۔۔۔ مثلاً وہ کہیں کہ اپنی بیوی کو بلا وجہ معتد بہ طلاق دے دے تو اطاعت واجب نہیں ہے۔‘‘

(گیارواں حصہ   ضمیمہ ثانیہ ص نمبر ۷۵۱ اسلامک بک سروس)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209201071

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں