بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا طلاق علی المال مشروع ہے؟ نیز طلاق سے متعلق مختلف سوال


سوال

1.    طلاق کیا شرائط کیا ہیں؟ کیا تین طلاق ایک  ساتھ ہو جاتی  ہیں؟

2. ایک طلاق یا دو طلاق کے بعد رجوع کیا جا سکتا ہے؟ اگر کیا جا سکتا تو کیا نکاح کے بغیر رجوع جائز ہے ؟ کتنے عرصے تک رجوع کرسکتے؟

3.  اگر ایک طلاق آج دی اور تیسری طلاق تین ماہ بعد تو عدت پہلی طلاق سے شمار ہو گی یا آخری سے؟

4. طلاق ایک بار کہنے سے ہو جاتی  ہے یا تین بار کہنے  سے ہی صرف ہوتی ہے؟

5. اور کیا کوئی شخص طلاق کے عوض پیسے لے سکتا؟ یا پیسہ طے کر کے طلاق دینے پہ شرعی حکم کیا ہے؟

جواب

1. طلاق کے وقوع کے  لیے بنیادی شرط یہ  ہے کہ انسان اپنی منکوحہ کو طلاق دے، اپنی منکوحہ کو طلاق دینے سے طلاق واقع ہو جاتی ہے۔

نیز تین طلاق ایک ساتھ دینے سے تینوں  واقع ہو جاتی ہیں۔

الفتاوى الهندية (1/ 348):

"(وأما شرطه) على الخصوص فشيئان (أحدهما) قيام القيد في المرأة نكاح أو عدة (والثاني) قيام حل محل النكاح حتى لو حرمت بالمصاهرة بعد الدخول بها حتى وجبت العدة فطلقها في العدة لم يقع لزوال الحل."

2. اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کو ایک یا دو طلاقِ رجعی دی ہو یعنی طلاق کے  لیے  صریح الفاظ استعمال  کیے ہوں تو ایسی دی گئی  طلاق  کی صورت میں عدت کے دوران بیوی سے رجوع کیا جا سکتا ہے،  عدت کے بعد رجوع کا حق نہیں ہو گا۔ تاہم رجوع کے بعد بقیہ طلاقوں کا حق ہوگا۔

3. اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دی،  پھر  عدت ختم ہونے سے پہلے ہی کچھ عرصہ بعد دوسری اور تیسری طلاق دی تو اس عورت کی عدت پہلی طلاق سے ہی شروع ہو جائے گی، یہ حکم اس صورت میں ہے جب  پہلی طلاق کے بعد رجوع نہ کیا ہو، اگر پہلی طلاق کے بعد رجوع کر لیا ہو تو  اگلی طلاق سے دوبارہ از سرِ نو عدت شروع کرنا ہو گی۔

4. ایک بار طلاق کہنے سے بھی طلاق ہو جاتی ہے، ایک طلاق دینے کے بعد شوہر کے پاس یہ حق ہوتا ہے کہ رجوع کر کے یا نیا نکاح کر کے ساتھ رہ  لے، لیکن تین طلاق کے بعد یہ باقی نہیں  رہتا۔

5. اگر شوہر کسی معقول وجہ کی بنیاد پر بیوی کو بلا عوض طلاق دینے پر راضی نہ ہو اور طلاق کے  لیے بدل میں رقم کا مطالبہ کرتا ہے تو شرعاً اس کی گنجائش ہے اور باہمی رضامندی کی صورت میں شوہر کا طلاق کے بدلہ میں وہ رقم لینا جائز ہو گا۔

الفتاوى الهندية (1/ 495):

"[الفصل الثالث في الطلاق على المال]

 إن طلقها على مال فقبلت وقع الطلاق ولزمها المال وكان الطلاق بائنا كذا في الهداية."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144201200152

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں