میں نے دوسری شادی کی والدین کے اجازت کے بغیر کی ،اس شادی کو تین سال گزرچکے ہیں،ہم دونوں اچھی زندگی گزاررہے ہیں،والدین کواب دوسری شادی کے بارے میں معلوم ہوا،والدین نے دباؤ ڈالنا شروع کیا کہ دوسری بیوی کوطلاق دو ورنہ ہم آپ کوعاق کردیں گے۔
کیا میرے والدین کا یہ مطالبہ کرنا درست ہے؟جب کہ میں طلاق نہیں دینا چاہتاہوں۔
واضح رہے کہ شریعت مطہرہ نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کی بہت تاکید کی ہے،اوران کے جائز حکم کوپوراکرنے کاحکم دیاہے،لیکن دوسری طرف یہ بھی حکم دیاہے کہ اگروہ کسی ایسی بات کامطالبہ کریں جس میں کسی کی حق تلفی اورنقصان ہویااسے پوراکرنے کے نتیجے میں کسی فرض ،واجب کاترک لازم آتاہویاناجائز کام کاارتکاب کرنا پڑے توایسے امورمیں والدین کاحکم پورانہ کیاجائے ،بلکہ ادب واحترام کےساتھ ان کوسمجھاناچاہیے کہ یہ حکم خلاف شریعت ہے،اگرخودسمجھاناممکن نہ ہوتوخاندان کے پڑوں سے کہلوایاجائے ،لہذا صورت مسئولہ میں سائل کاپنے والدین اورگھر والوں کونظرانداز کرکے خفیہ طورپر دوسری شادی کرلینامناسب اقدام نہیں تھا،اس طرح کی شادی بعض اوقات سکون کے بجائے مسائل اور الجھنوں کاباعث بنتی ہے،اب جبکہ سائل نے یہ کام کرہی لیاتواب اگردونوں بیویوں کے حقوق درست طریقہ سے اداکررہاہے اوردونوں میں عدل وانصاف کررہاہے پھراگرمعقول وجہ اورسبب کے بغیر والدین بیوی کوطلاق دینے کامطالبہ کررہے ہیں توسائل ان کی غلط فہمیوں کودورکرکے ان کوراضی کرے، کسی معقول عذر کے بغیر بیوی کوطلاق دینا شرعاًناپسندیدہ عمل ہے،بلکہ اللہ تعالیٰ کےہاں جائز کاموں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ عمل ہے،اوریہ بات والدین کوحکمت وبصیرت سے سمجھائی جائے ،اس کے باوجود اگروہ نہیں مانتے اوربغیر کسی معقول وجہ کے سائل سے اپنی بیوی کوطلاق دینے کامطالبہ کرتے ہیں توطلاق دینا لازم نہیں،اورطلاق نہ دینے پر سائل والدین کانافرمان نہیں ہوگا،نہ ہی گناہ ہوگا۔
اوراگر سائل دوسری شادی کرکے دونوں کےحقوق ادانہیں کررہاہے یادونوں میں عدل وانصاف نہیں کررہاہے تویہ عنداللہ بہت پڑاگناہ ہے اوراحادیث میں ایسے شوہروں کے بارے میں سخت وعیدیں آئی ہیں،اس صورت میں اس کاازالہ ضروری ہے،اگر اس کے لیے ایک بیوی کوچھوڑناپڑے توچھوڑنے کی غلطی اس ظلم وزیادتی والی غلطی سے کم ترہے ۔
مرقاۃ المفاتیح میں ہے:
"عن معاذ قال: أوصاني رسول الله صلى الله عليه وسلم بعشر كلمات، قال: " لا تشرك بالله شيئا، وإن قتلت وحرقت، ولا تعقن والديك وإن أمراك أن تخرج من أهلك ومالك، ولا تتركن صلاة مكتوبة متعمدا؛ فإن من ترك صلاة مكتوبة متعمدا فقد برئت منه ذمة الله، ولا تشربن خمرا فإنه رأس كل فاحشة، وإياك والمعصية؛ فإن بالمعصية حل سخط الله، وإياك والفرار من الزحف، وإن هلك الناس، وإذا أصاب الناس موت وأنت فيهم فاثبت، (أنفق على عيالك من طولك، ولا ترفع عنهم عصاك أدبا وأخفهم في الله."
(كتاب الايمان ، باب الكبائر وعلامات النفاق، ج:1، ص:132، ط:دار الفكر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144511102586
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن