بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق / خلع کا مطالبہ کب جائز ہے؟


سوال

1۔میرے شوہر 18 سال سے شوگر کے مریض ہیں اور اسکی وجہ سے اس کی مردانہ قوت انتہائی کمزور ہوگئی ہے ،نہ ہونے کے برابر ہے ، وہ مجھے مشورہ دے رہے ہیں کہ میں بھی کسی ڈاکٹر کے پاس جاؤں  اور ان سے دوا  لوں  تاکہ میری  خواہش بھی ختم ہو جائے ۔کیا ان کا   مجھے یہ  مشورہ دینا درست ہے ؟میں ان سےالگ ہونا چاہتی ہوں کیا میرے لیے  طلاق یا خلع کا مطالبہ کرنا درست ہے ؟

2۔دوسری بات یہ ہے کہ ہمارا دو فلور کامکان ہے ، جس کی خریداری میں، میں نے بھی پیسے  ملائے  تھے  اور  میرے نام پر ہے ، اگر  شوہر  مجھے طلاق یا خلع دے دے ،  تو  کیا میں ایک فلور میں ان سے الگ  اپنے بیٹوں کے ساتھ رہ سکتی ہوں ؟ ایک بیٹے  کی عمر سترہ سال اور دوسرے کی عمر پندرہ سال ہے۔ 

جواب

1۔صورت ِ مسئولہ میں اگر سائلہ عفت و پاکدامنی کے ساتھ اسی شوہر کے ساتھ وقت گزار سکتی ہے تو اس کو چاہیے کہ وہ شوہر کی بیماری کا لحاظ کرتے ہوئے صبر کرے اور اسی کے ساتھ رہے ،لیکن اگر سائلہ سمجھتی ہے کہ شوہر کی طرف سے ازدوجی حق کی ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے اب  اس کے ساتھ  عفت و پاکدامنی کے ساتھ رہنا مشکل ہے تو ایسی صورت میں سائلہ اپنے شوہر سے طلاق / خلع کا مطالبہ کر سکتی ہے ۔باقی شوہر کا سائلہ کو یہ مشورہ دینا کہ  وہ کسی ڈاکٹر سے دوا لے تاکہ اس کی فطری حاجت کا تقاضہ ہی  ختم ہو جائے ، درست نہیں ہے۔

2۔طلاق / خلع کے بعد  سائلہ کا شوہر سے علیحدہ ہونا لازم اور ضروری ہے ،لہذا اگر ایک فلور پر سائلہ رہتی ہے تو بیٹوں کے ساتھ طلاق یا خلع کے بعد وہاں رہنا جائز  ہو گا۔

قرآن کریم  میں ہے :

{فَإِنۡ خِفۡتُمۡ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ ٱللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيۡهِمَا فِيمَا ٱفۡتَدَتۡ بِهِۦ}

[البقرة: 229]

مشكاة المصابيح  میں ہے :

"عن سعد بن أبي وقاص قال: رد رسول الله صلى الله عليه وسلم على عثمان ابن مظعون التبتل ولو أذن له لاختصينا۔"

(کتاب النکاح ، الفصل الاول : 2/ 927 ، ط : المكتب الإسلامي)

فتاوی ہندیہ  میں ہے:

"اذا تشاق الزوجان و خافا ان لايقيما حدود الله فلا بأس بان تفتدي نفسها منه بمال يخلعهابه، فاذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة، ولزمها المال".

(كتاب الطلاق ، الباب الثامن في الخلع ، 1/ 519 ، ط : قديمي)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100086

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں