بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو القعدة 1446ھ 22 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

طلاق کے الفاظ کو بے موقع اور بے جا استعمال کرنے کا حکم


سوال

ہمارے علاقے میں ایسا ماحول بن گیا ہے کہ اکثر لوگ یوں کہہ دیتے ہیں کہ :"یوں کیا تو طلاق ، تم نے چائے کے پیسے دیے تو طلاق ـ"،اب دوسرآدمي پیسے دے دیتا ہے تو کیا طلاق واقع ہوگئی؟

اب اگر کسی کی دو بیویاں ہوں تو کس کو طلاق ہوئی ؟

حالانکہ یہ کہتے وقت کسی بیوی کا ذہن مین نہیں ہوتا،یہ بات روز ہورہی ہے اور اکثر لوگ اس میں مبتلا ہیں،اسی طرح قسم کھالیتے ہیں کہ" قسم ہے کہ تو نےپیسے دیے تو"،ان الفاظ کا کیا حکم ہے؟ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ جملے کہ :"یوں کیا تو طلاق ، تم نے چائے کے پیسے دیے تو طلاق "ان الفاظ میں چوں کہ صراحتاً یا دلالۃً جملہ کہنے والا اپنی بیوی کی جانب اضافت نہیں کررہا ، اس لیے کسی کا دوسرے کے حق میں  صرف اسی حد تک جملہ کہنے سے بیوی پر طلاق تو نہیں ہوگی ، البتہ طلاق دینا انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے ،  نیز ہمہ وقت زبان پر طلاق کے لفظ کو جاری کرنا بھی شرعاً اچھا نہیں ہے ، اس لیے جہاں لوگوں میں بات بات پر طلاق کے الفاظ ادا کرنے کا رواج ہو وہاں اس عمل کی روک تھام لازم ہے ، لوگوں کو اپنی گفتگو میں طلاق کے استعمال سے اجتناب لازم ہے ۔ مذکورہ جملے ادا کرنا بھی شرعاً درست نہیں ہے ۔ البتہ اگر کوئی حقیقی صورت پیش آئی ہو تو اس کی مکمل تفصیل لکھ کر اس کا حکم معلوم کیا جاسکتا ہے ۔

اسی طرح اگر قسم کھانے کا رواج ہے اور یوں کہا جاتا ہو کہ "قسم ہے تو نے پیسے دیے تو..."اگر اس کے بعد کے الفاظ میں مستقبل کے اعتبار سے کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا ذکر ہو ، تواس سے بھی قسم منعقد ہوجائے گی، کیوں کہ عرف میں اس سے اللہ تعالی کے نام کی قسم ہی مراد لی جاتی ہے،پھراگرقسم توڑدی(یعنی جس کام نہ کرنےکی قسم اُٹھائی تھی ،وہ کام کیا)توایسی صورت میں کفارہ لازم آئےگا،قسم توڑنے کا کفارہ یہ ہے کہ دس غریب محتاجوں کو ایک جوڑا کپڑوں کا دیا جائے یا ایک دن صبح، شام پیٹ بھر کر کھانا کھلایا جائے، جس سےچاہے کفارہ ادا کرے اور اگر ان میں سے کسی ایک پر بھی قدرت نہ ہو تو تین دن لگاتار روزے رکھے۔اور اگر اس جملے بعد کوئی اور الفاظ کہے جاتے ہوں تو ان کی صراحت کے بعد جواب دوبارہ معلوم کرلیں۔

سنن أبي داود میں ہے:

"عن ابن عمر، عن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال: أبغض الحلال إلى الله عز وجل الطلاق."

(کتاب: طلاق، باب: کراہیۃ الطلاق، ج: 3، ص: 505، رقم الحدیث: 2178، ط:  دار الرسالة العالمية)

فتاوی شامی میں ہے :

" (قوله أو لم ينو شيئا) لما مر أن الصريح لا يحتاج إلى النية، ولكن لا بد في وقوعه قضاء وديانة من قصد إضافة لفظ الطلاق إليها عالما بمعناه."

(کتاب: طلاق، باب: صريح الطلاق، ج: 3، ص: 250، ط: سعید)

وفیہ ایضاً:

"فيرجع حاصل الخلاف بيننا وبين الشافعي في يمين لا يقصدها الحالف في المستقبل. فعندنا ليست بلغو وفيها الكفارة. وعنده هي لغو ولا كفارة ."

(کتاب الأیمان، ج:3، ص:708، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144611100445

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں