1۔سوال یہ ہے کہ کیا شوہر کے طلاق دینا بیوی کےلیے سننا ضروری ہے،یعنی شوہر نے طلاق دی اور بیوی نے نہیں سنی تو کیا طلاق ہوجائے گا یانہیں؟
2۔شوہرنے بیوی کی جگہ سالی کو میسج کیا کہ میں بیوی کو طلاق دے رہاہوں،توکیا اس طر ح سے طلاق ہوجاتی ہے یانہیں؟
3۔اگر شوہر بیوی کو ڈرانے دھمکانے یا تنبیہ کے طور پرطلاق کےالفاظ لکھ لےتو کیا طلاق واقع ہوجائےگی؟کیا صرف لکھنےسےہی طلاق ہوجاتی ہے،یا لکھنے کے ساتھ ساتھ دستخط کرنا بھی ضروری ہے؟
4۔اگر شوہر بیوی کےبارے میں یہ کہے کہ طلا ق اس کا مقدر ہےتو کیاایسی صورت میں طلاق ہوجائے گی،شوہر کا یہ کہنا کہ جمعہ کے بعد میرے اور آپ کےراستے الگ ہوں گے اس کا کیا حکم ہے؟
واضح رہے کہ یہ سب کچھ طلاق کےبارے بحث و مباحثہ کے وقت کیے گیے ہیں۔
1۔صورت مسئولہ میں چوں کہ طلاق کا حق اور اختیار مرد کو حاصل ہے، تعلق مرد کے ساتھ ہے لہذا شوہر اگر طلاق دے اور بیوی نہ سنے تب بھی طلاق واقع ہوجائے گی یعنی وقوع طلاق کےلیے بیوی کا طلاق کے الفاظ سننا ضرور ی نہیں ہے۔
2۔سوال میں مذکورہ جملہ کہ: "میں تم کو طلاق دے رہا ہوں" اگر شوہر نے یہ جملہ لڑائی جھگڑے کے دوران یا غصہ کی کیفیت میں لکھے تھے تو اس سے ایک طلاق رجعی واقع ہوگی۔۔
3۔شوہراگر ڈرانے ،دھمکانے یا تنبیہ کے طور پر بیوی کی طرف نسبت کرتے ہوئے ماضی یا حال کے صیغے کے ساتھ صرف طلاق کے الفاظ لکھ لے تو طلاق واقع ہوجائے گی،اگر چہ دستخط نہ کرے۔
4۔شوہرکا یہ کہنا کہ” طلا ق اس کا مقدر ہےیا یہ کہنا کہ” جمعہ کے بعد میرے اور آپ کےراستے الگ ہوں گے“ یہ مستقبل کے صیغے ہیں ان سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔
فتاوی شامی میں ہے:
"و كذا المضارع إذا غلب في الحال مثل أطلقك كما في البحر".
(کتاب الطلاق،: 3، صفحہ: 348، ایچ، ایم۔ سعید)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
في المحيط: "لو قال بالعربية: أطلق، لايكون طلاقاً إلا إذا غلب استعماله للحال فيكون طلاقاً".
(کتاب الطلاق، الفصل السابع في الطلاق بالألفاظ الفارسية، ج: 1، صفحہ: 384، ط: دار الفکر)
درر الحكام ميں هے:
"والحاصل أن كل كتاب يحرر على الوجه المتعارف من الناس حجة على كاتبه كالنطق باللسان."
(المقدمة، المقالة الثانية، ج: 1، ص: 69، ط: دار الجيل)
فتاوی تاتار خانیہ میں ہے:
أن يكتب" هذا كتاب فلان بن فلان إلي فلانة أما بعد فأنت طالق" وفي هذا الوجه يقع الطلاق في الحال، وفي الخانية: وتلزمها العدة من وقت الطلاق، م: وإن قال لم أعن به الطلاق! لم يصدق في الحكم."
(كتاب الطلاق، الباب السادس، ج: 4، ص: 528، ط: مكتبة زكريا)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144607101863
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن