بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ربیع الثانی 1446ھ 10 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

طلبہ سے مالی جرمانہ وصول کرنا


سوال

آج کل مختلف مدارس میں مختلف طریقوں سے مالی جرمانہ وصول کرتے ہیں کبھی اس کو تعلیمی فیس کا نام دیتے ہیں اور کبھی مطعم کا خرچہ وغیرہ۔ حالانکہ یہ صرف ان طلباء سے لیا جاتا ہے جو غیرحاضری کرے یا لیٹ آئے یا سبق یاد نہ کرے یا کوئی اور خلاف قانون کام کریں اور موجودہ طلباء بغیر اس جرمانہ کے جرائم سے احتراز بھی نہیں کرتے،جسمانی سزا کے بجائے یہ مالی سزا زیادہ مؤثر ہے کیا موجودہ حالات اور طبائع کی بنیاد پر کسی طرح طلباء سے مالی جرمانہ وصول کیا جا سکتا ہے اور اگر جائز ہے تو اس کے مصارف کیا ہوں گے؟

جواب

 شرعاً مالی جرمانہ لینا جائز نہیں، جو رقم اب تک لی گئی ہے وہ بھی واپس کرنا ضروری ہے اس کے علاوہ  اس کا کوئی اور مصرف نہیں۔

  • وفی شرح الآثار: التعزیر بأخذ المال کانت فی ابتداء الاسلام ثم نسخ۔(البحر الرائق /باب التعزیر41/5 )
  • والحاصل أن المذہب عدم التعزیر بأخذ المال۔ (شامی / باب التعزیر، مطلب فی التعزیر بأخذ المال، 61/4، سعید)
  • لا یجوز لأحد من المسلمین أخذ مال أحد بغیر سبب شرعی۔ (شامی / باب التعزیر، مطلب فی التعزیر بأخذ المال،61/4)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404100720

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں