آج کل مختلف مدارس میں مختلف طریقوں سے مالی جرمانہ وصول کرتے ہیں کبھی اس کو تعلیمی فیس کا نام دیتے ہیں اور کبھی مطعم کا خرچہ وغیرہ۔ حالانکہ یہ صرف ان طلباء سے لیا جاتا ہے جو غیرحاضری کرے یا لیٹ آئے یا سبق یاد نہ کرے یا کوئی اور خلاف قانون کام کریں اور موجودہ طلباء بغیر اس جرمانہ کے جرائم سے احتراز بھی نہیں کرتے،جسمانی سزا کے بجائے یہ مالی سزا زیادہ مؤثر ہے کیا موجودہ حالات اور طبائع کی بنیاد پر کسی طرح طلباء سے مالی جرمانہ وصول کیا جا سکتا ہے اور اگر جائز ہے تو اس کے مصارف کیا ہوں گے؟
شرعاً مالی جرمانہ لینا جائز نہیں، جو رقم اب تک لی گئی ہے وہ بھی واپس کرنا ضروری ہے اس کے علاوہ اس کا کوئی اور مصرف نہیں۔
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144404100720
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن