ایک ادارے میں یہ اصول ہے کہ صبح آٹھ بجے کے بعد آنے والے طلبہ سے مالی جرمانہ 20 روپے وصول کیا جاتا ہے، مزید تاخیر سے آنے والے طلبہ سے 50 روپے، اور زیادہ تاخیر سے آنے والے طلبہ سے 100 روپے بھی لیے جاتے ہیں، مزید برآں اگر کوئی بچہ جرمانہ نہ دے، تو زبردستی تلاشی لے کر جرمانہ لیا جاتا ہے، اور جن کے پاس جرمانہ کی رقم نہیں ہوتی، انہیں جرمانہ کی رقم جمع کروانے کے لیے گھر بھی واپس کیا جاتا ہے۔
کیا درج بالا صورتحال میں یا کسی بھی سزا کے طور پر طلبہ سے مالی جرمانہ وصول کرنا شرعاً درست ہے یا نہیں؟
صورتِ مسئولہ میں تاخیر سے آنے والے طلبہ سے جرمانہ وصول کرنا، شرعاً جائز نہیں ہے، لہذا جن طلبہ سے اب تک جرمانے کے طور پر نقد رقم وصول کی گئی ہو، انہیں وصول کردہ رقم واپس کرنا مذکورہ ادارہ کی انتظامیہ پر لازم ہوگا، طلبہ کی اجازت کے بغیر مذکورہ رقم کا استعمال شرعا جائزنہیں ہوگا۔
پس مذکورہ ادارہ میں مالی جرمانہ وصول کرنے کا جو معمول ہے، اسے فوراً ختم کردینا چاہیے، طلبہ کی اصلاح کے لیے ایسی جائز صورت اختیار کی جائے جس سےوہ بروقت تعلیم گاہ حاضر ہونے کے عادی ہو جائیں۔
فتاوی شامی میں ہے:
"و أفاد في البزازية : أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنه مدةً؛ لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه، لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لايجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي ... و في شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. اهـ."
(کتاب الحدود، باب التعزیر، جلد : 4 ، صفحه : 61 ، طبع : سعید)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144604101319
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن