بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

طلبہ نہیں آئے تو مدرس تنخواہ کا مستحق ہوگا یا نہیں؟


سوال

ایک مدرسے کے مهتمم نے مدرس سے كہاكہ آپ ميرے مدرسہ میں پڑھانا میں تنخواه دوں گا، ليكن اس مدرسے میں طلباء نہیں آئے اور اب اس مدرس كو دوسری جگہ بھی درس نہیں ملتا ہے،  تو كيا مدرس تنخواه كا مستحق هوگا یا نہیں؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اگر کسی مہتمم نے مدرس کو اپنے ادارے کے لیے پابند کیا ہو کہ آپ یہاں پڑھائیں گے ، طلبہ سے متعلق کوئی صراحت نہیں ہوئی تھی اور مذکورہ مدرس  اسی مدرسے میں آکر پڑھانے کے  لیے ٹھہرا رہا تو شرعی اعتبار سے مذکورہ مدرس  معاہدے کے مطابق تنخواہ کا مستحق ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(والثاني) وهو الأجير (الخاص) ويسمى أجير واحد (وهو من يعمل لواحد عملًا مؤقتًا بالتخصيص ويستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة."

رد المحتار:

"قال ط: وفيه أنه إذا استؤجر شهرًا لرعي الغنم كان خاصًّا وإن لم يذكر التخصيص، فلعل المراد بالتخصيص أن لايذكر عمومًا سواء ذكر التخصيص أو أهمله، فإن الخاص يصير مشتركًا بذكر التعميم كما يأتي في عبارة الدرر."

(کتاب الاجارہ باب ضمان الاجیر مطلب فی اجیر خاص،ج:6،ص:69،ط:سعید)

فتح القدير للكمال ابن الهمام  میں ہے :

"أن ‌الأجير ‌الخاص هو الذي يستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة ، وإن لم يعلم كمن استؤجر شهرا للخدمة أو لرعي الغنم."

(كتاب الاجارۃ ، باب اجارۃ العبد ج:9،ص:140، ط : شركة مكتبة ومطبعة مصفى البابي الحلبي وأولاده بمصر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144403100441

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں