بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 جُمادى الأولى 1446ھ 03 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

طلبہ کی پٹائی کا حکم


سوال

مدرس یا ٹیچر اور بڑوں کے لیے   طلبہ / بچوں کو تادیب کے لیے  مارنا ثابت ہےیا نہیں اور حکم کیا ہے؟

جواب

 واضح رہے کہ بچوں کی تعلیم وتربیت میں نرمی اور محبت کا انداز اختیار کرنا چاہیے ، بے جا مار پیٹ سے بچے  ڈھیٹ ہوجاتے ہیں، پھر ان پر کسی بات کا اثر نہیں ہوتا ،  اور زیادہ مارنا  تعلیم وتربیت کے لیے مفید بھی نہیں، بلکہ نقصان دہ ہے ،   ایک تو یہ کہ اس سے  بچہ کے  اعضاءکمزورہوجاتے ہیں، دوسرایہ کہ ڈرکے مارے سارا پڑھا لکھا بھول جاتے ہیں ،تیسرایہ کہ جب پٹتے پٹتے عادی ہوجاتے ہیں  تو بے حیا  بن جاتے ہیں،  پھرمار  سے ان پرکچھ اثر بھی نہیں ہوتا، اور اس کے مقابلے میں نرمی اور محبت  اور بسا اوقات حوصلہ افزا ئی  کے لیےانعام دینےاور محبت کا طریقہ زیادہ سود مند ہے، اور زیادہ مارنا  تعلیم وتربیت کے لیے مفید طریقہ نہیں ہے۔ نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تربیت نرمی اور محبت سے فرمائی ہے، اپنے خدام سے بھی رسول اللہ ﷺ کبھی سختی سے پیش نہیں آئے۔ اس لیے حتی الامکان نرمی اور شفقت کے ساتھ بچوں کی تربیت کرنی چاہیے۔  اور اگر ضرورت کے وقت سزا دینے کی بھی ضرورت ہوتو تدریجاً  سزا دے مثلاً  1۔  ملامت کرنا، 2۔  ڈانٹنا، 3۔  کان کھینچنا،4۔ ہاتھ سے مارنا ۔

تاہم  طلبہ کی پٹائی  کرنے میں درج ذیل شرائط کی رعایت ضروری ہے:

1۔   بچوں کے والدین سے اس کی اجازت لی ہو۔

2۔ سزا سے مقصود تنبیہ و تربیت ہو، غصہ یا انتقام کے جذبہ کی تسکین نہ ہو۔

3۔ایسی سزا  ہو جو  شرعاً ممنوع نہ ہو۔

4۔ غصہ کی حالت میں نہ مارا جائے، بلکہ جب غصہ اتر جائے تو مصنوعی غصہ کرتے ہوئے سزا دے۔

5۔ بچوں کی طبیعت اس کی متحمل ہو، یعنی بچوں کو ان کی برداشت سے زیادہ نہ مارے۔

6۔ مدرسہ / اسکول کے ضابطہ کی رو سے اساتذہ کو اس طرح کی تادیب کی اجازت ہو۔

7۔ ہاتھ سے مارے، لاٹھی ، ڈنڈا، کوڑے وغیرہ سے نہ مارے، اگر بالغ ہو تو بقدرِ ضرورت لکڑی سے بھی مار سکتا ہے  بشرطیکہ برداشت سے زیادہ نہ ہو۔

8۔ ایک وقت میں تین سے زیادہ ضربات نہ مارے، اور نہ ہی ایک جگہ پر تینوں ضربات مارے، بلکہ تین ضربات متفرق جگہوں پر مارے۔

9۔  سر، چہرے اور شرم گاہ پر نہ مارے۔

10۔     بچہ تادیب کے قابل ہو، اتنا چھوٹا بچہ جو تادیب کے قابل نہ ہو اس کو مارناجائز نہیں ہے۔

رد المحتار  علي  الدر  المختار میں ہے:

"لايجوز ضرب ولد الحر بأمر أبيه، أما المعلم فله ضربه لأن المأمور يضربه نيابة عن الأب لمصلحته، والمعلم يضربه بحكم الملك بتمليك أبيه لمصلحة التعليم، وقيده الطرسوسي بأن يكون بغير آلة جارحة، وبأن لايزيد على ثلاث ضربات ورده الناظم بأنه لا وجه له، ويحتاج إلى نقل وأقره الشارح قال الشرنبلالي: والنقل في كتاب الصلاة يضرب الصغير باليد لا بالخشبة، ولايزيد على ثلاث ضربات".

(کتاب الحظر والإباحة، فصل في البیع، فروع، ٦ / ٤٣٠، ط: دار الفكر)

وفیہ ایضا:

"(وإن وجب ضرب ابن عشر عليها بيد لا بخشبة) لحديث: «مروا أولادكم بالصلاة وهم أبناء سبع، واضربوهم عليها وهم أبناء عشر.

 (قوله: بيد) أي ولايجاوز الثلاث، وكذلك المعلم ليس له أن يجاوزها، «قال عليه الصلاة والسلام لمرداس المعلم: إياك أن تضرب فوق الثلاث، فإنك إذا ضربت فوق الثلاث اقتص الله منك». اهـ إسماعيل عن أحكام الصغار للأستروشني، وظاهره أنه لايضرب بالعصا في غير الصلاة أيضاً.(قوله: لا بخشبة) أي عصا، ومقتضى قوله: بيد أن يراد بالخشبة ما هو الأعم منها ومن السوط أفاده ط.(قوله: لحديث إلخ) استدلال على الضرب المطلق، وأما كونه لا بخشبة فلأن الضرب بها ورد في جناية المكلف. اهـ."

(کتاب الصلاة، ١ / ٣٥٢، ط: دار الفكر)

حاشیۃ الطحطاوي علي الدر المختار  میں ہے:

"(قوله: بيد) قيد في امداد الفتاح بكونه ثلاث ضربات فقط، ويفهم منه انه  لايضرب بالعصا في جميع ما أمر به ونهي عنه  فليراجع حلبي، والمنصوص انه يجوز للمعلم أن يضربه باذن أبيه نحو ثلاث ضربات ضرباً وسطاً سليماً ولم يقيد بغير العصا ... (قوله: لا بخشبة) مقتضي قوله: بيد، أن يراد بالخشبة ما هو الأعم منها ومن السوط، (قوله: لحديث) استدلال علي الضرب المطلق، وأما كون الضرب لا بخشبة فلأن الضرب بها ورد في جناية  صادرة  من المكلف ولا جناية من الصغير."

(کتاب الصلاة، ، ١ / ١٦٩ - ١٧٠، ط: رشیدیة)

رد المحتار علي  الدر  المختار  میں ہے:

"لو ضرب المعلم الصبي ضرباً فاحشاً) فإنه يعزره ويضمنه لو مات، شمني

 (قوله: ضرباً فاحشاً) قيد به؛ لأنه ليس له أن يضربها في التأديب ضرباً فاحشاً، وهو الذي يكسر العظم أو يخرق الجلد أو يسوده، كما في التتارخانية. قال في البحر: وصرحوا بأنه إذا ضربها بغير حق وجب عليه التعزير اهـ أي وإن لم يكن فاحشاً."

(کتاب الحدود، باب التعزیر، ٤ / ٧٩، ط: دارالفكر)

مشكاة المصابيح میں ہے:

"عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إذا ضرب أحدكم فليتق الوجه» . رواه أبو داود".

( کتاب الحدود، باب التعزیر، الفصل الثاني، ٢ / ١٠٧٩، ط: المکتب الإسلامي بیروت)

الموسوعة الفقهية الكويتية میں ہے:

"للمعلم ضرب الصبي الذي يتعلم عنده للتأديب . وبتتبع عبارات الفقهاء يتبين أنهم يقيدون حق المعلم في ضرب الصبي المتعلم بقيود منها:

أ - أن يكون الضرب معتادا للتعليم كماً وكيفاً ومحلاً، يعلم المعلم الأمن منه، ويكون ضربه باليد لا بالعصا، وليس له أن يجاوز الثلاث، روي أن النبي عليه الصلاة والسلام قال لمرداس المعلم رضي الله عنه: إياك أن تضرب فوق الثلاث، فإنك إذا ضربت فوق الثلاث اقتص الله منك.

ب - أن يكون الضرب بإذن الولي، لأن الضرب عند التعليم غير متعارف، وإنما الضرب عند سوء الأدب، فلا يكون ذلك من التعليم في شيء، وتسليم الولي صبيه إلى المعلم لتعليمه لايثبت الإذن في الضرب، فلهذا ليس له الضرب، إلا أن يأذن له فيه نصا.ونقل عن بعض الشافعية قولهم: الإجماع الفعلي مطرد بجواز ذلك بدون إذن الولي  .

ج - أن يكون الصبي يعقل التأديب، فليس للمعلم ضرب من لا يعقل التأديب من الصبيان، قال الأثرم: سئل أحمد عن ضرب المعلم الصبيان، قال: على قدر ذنوبهم، ويتوقى بجهده الضرب وإذا كان صغيرا لا يعقل فلا يضربه."

(تعلیم وتعلم ، الضرب للتعلیم،، ١٣ / ١٣،  ط: دارالسلاسل، کویت)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144603101299

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں