بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طلبہ کےوکالت نامہ پردستخط کرنے سے مہتمم کازکوٰۃ کےمال سے تنخواہ لینے کاحکم


سوال

مہتمم نے طلبہ سے داخلے کے وقت وکالت نامہ پر دستخط ليے،اس وکالت نامے کے ذریعے وہ اپنی تنخواہ بغیر کسی اور کے تملیک کے لے سکتا ہے ؟

جواب

واضح رہےکہ مدرسہ میں داخلہ کےوقت طلبہ سے  وصولی زکوٰۃکےوکالت نامہ پردستخط کرالینےسےمہتمم ِمدرسہ، طلبہ کاوکیل بن کر،زکوٰۃ وصول کرنےکےبعد،طلبہ کومالِ زکوٰۃ کاباقاعدہ قبضہ دےکرمالک بنائےبغیر،مہتمم کااپنےقبضہ کوطلبہ کےقبضہ  کےقائم مقام سمجھ کر ،زکوٰۃ کے مال سےاپنی تنخواہ لینا یااس کومدرسہ کے دیگر مدات میں خرچ کرناجائزنہیں ہے،بلکہ ایسےوکالت نامہ(جس کے تحت وکیل کووصول زکوٰۃاوراس کوخرچ کرنے کے اختیارات حاصل ہو)پربےشمارفقہی اعتراضات واردہوتےہیں۔
تفصیل کے  لیے جواہر الفتاوی: «تملیکِ  زکات کے بارے میں حضرت رشید احمد گنگوہی (رحمہ اللہ) اور حضرت خلیل احمد سہارنپوری(رحمہ اللہ)  کی رائے» (1/ 53 تا 62)، اور   «مال زکات میں تملیکِ شرعی   ہر حال میں ضروری ہے»(2/ 441)،ط۔ اسلامی کتب خانہ کراچی،طبع:2011)  اور   جامعہ کے ویب سائٹ پر  موجودہ فتوی بعنوانِ  (مدرسہ انتظامیہ کا داخلہ کے وقت طلبہ اور ان کے سرپرستوں سے زکوۃ کی وصولی اور طلبہ پر خرچ کرنے کے وکالت نامہ پر دستخط لینا) ملاحظہ فرمائیں۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"ويشترط أن يكون الصرف (تمليكا) لا إباحة كما مر (لا) يصرف (إلى بناء) نحو (مسجد و) لا إلى (كفن ميت وقضاء دينه)
(قوله: تمليكا) فلا يكفي فيها الإطعام إلا بطريق التمليك ولو أطعمه عنده ناويا الزكاة لا تكفي ط وفي التمليك إشارة إلى أنه لا يصرف إلى مجنون وصبي غير مراهق إلا إذا قبض لهما من يجوز له قبضه كالأب والوصي وغيرهما ويصرف إلى مراهق يعقل الأخذ كما في المحيط قهستاني."

(کتاب الزكاة:باب مصرف الزكاة،ج:2،ص:344،ط:سعيد)

فقط اولله اعلم


فتوی نمبر : 144509101043

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں