بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طلبہ کے تعلیمی کام اجرت پر کرنا


سوال

مجھے ایک کمپنی کی کال آئی جو مجھے اچھی تنخواہ دے گی اور ملازمت پر رکھے گی، میں نے کام کے متعلق پوچھا تو بتایا کہ ہمارے کسٹمر امریکا اور برطانیہ کے وہ طلبہ ہوں گے جن کو اپنا کالج کا کام کرنا ہوگا اور وہ سستی یا کسی بھی وجہ سے نہیں کرنا چاہتے ہوں گے، تو وہ طلبہ ہم سے رابطہ کرکے اپنا تحقیقی کام یا کوئی بھی کام کروائیں گے، جس کا معاوضہ کمپنی ان سے وصول کرے گی، کیا اس طرح ک کام کرنا جائز ہے؟

جواب

کسی شخص یا ادارے کے لیے اجرت لے کر کسی طالب علم کا وہ علمی کام کرنا جس کی بنیاد پر اس طالب علم کی تعلیمی ادارے میں کارکردگی کا تعین کیا جاتا ہے اور  نا اہلی کے باوجود وہ اچھی کارکردگی والی سہولیات حاصل کرے یاتعلیمی مراحل طے کرے یہ جھوٹ، دھوکا دہی، حق تلفی جیسے کبیرہ گناہوں میں تعاون کی وجہ سے ناجائز ہے، اور ناجائز تعاون پر اجرت لینا بھی جائز نہیں ہے۔ 

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنکس پر فتاویٰ ملاحظہ کیجیے:

اجرت دے کر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھوانا

کیا طالبِ علم کو مقالہ تیار کرکے دینا اور اس پر اجرت وصول کرنا درست ہے؟

أحكام القرآن للجصاص ط العلمية (2 / 381):

"وقوله تعالى:{ولا تعاونوا على الاثم والعدوان}نهي عن معاونة غيرنا على معاصي الله تعالى."

فقط واللہ اعلم

 


فتوی نمبر : 144203200546

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں