شادی پاکستان میں ہوئی تھی، اب شرعی اعتبار سے طلاق ہوجانے کے بعد شوہر نے طلاق نامہ حکومت کی طرف سے جاری کردہ طلاق سرٹیفکیٹ فارن آفیسر سے تصدیق کروا کر جرمنی کی عدالت میں جمع کروائے، تو بیوی کی جانب سے ان کے وکیل نے اس طلاق کو شرعی و اسلامی طلاق ہونے کا بول کر تسلیم نہیں کیا، اور مزید کہا کہ یہ طلاق نامہ حکومت کے مجاز ادارے کی طرف سے جاری کردہ نہیں ہے، (حالاں کہ یونین کونسل کے قانون کو مکمل فالو کرتے ہوئے طلاق سرٹیفکیٹ جاری ہوا ہے۔)
اب مندرجہ ذیل امور کے بارے میں شرعی حکم دریافت کرنی ہے:
1۔ شرعی طلاق ہوجانے کے بعد خاتون جرمنی لاء کے اعتبار سے بیوی ہونے کی حیثیت سے تقریباً ڈھائی سال سے بیوی ہونے کا نان و نفقہ لے رہی ہے، تو کیا ان کےلیے اس طرح نان و نفقہ لینا جائز ہے؟
ابھی جب کہ جرمن لاء کے مطابق بھی طلاق کا مرحلہ (پروسس) مکمل ہونے کے قریب ہے تو ایسی صورت میں نان و نفقہ کا کیا حکم ہے؟
2۔ جرمن لاء کے مطابق طلاق ہوجانے پر شوہر کے مال و مکان میں سے آدھا حصّہ بیوی کو ملے گا، کیا اس کےلیے یہ مال و مکان لینا جائز ہوگا؟
3۔ شوہر کی ماہانہ آمدنی سے جرمن لاء کے مطابق بھی طلاق ہوجانے کے بعد پھر بھی شوہر بیوی کو ماہانہ نان و نفقہ دے گا، کیا بیوی کےلیے یہ نان و نفقہ لینا شرعًا جائز ہوگا؟
4۔ جرمن لاء کو استعمال کرتے ہوئے والدہ جب بچوں کو والد سے ملاقات کرنے سے روکے تو کیا اس کا یہ عمل جائز ہے؟
5۔ طلاق کے بعد بچوں کی پرورش کا حق کس کا ہے؟ دو بچیاں ہیں، ایک بچی کی عمر 14 سال اور دوسری بچی کی عمر 11 سال ہے، جب کہ ایک بیٹا ہے اس کی عمر 6 سال ہے۔
6۔ اگر کسی بچی یا بچے کی پرورش کا حق شرعی اعتبار سے والد کا ہو، اور والدہ عدالت کے ذریعے والد سے پرورش کا حق اپنی طرف منتقل کروالے تو کیا والدہ کا یہ عمل جائز ہے؟
7۔ والد کی طرف سے بچوں کےلیے دیے جانے والا نان و نفقہ والد کی اجازت کے بغیر کیا والدہ اپنے ذاتی استعمال میں لاسکتی ہے؟
مذکورہ بالا امور سے متعلق تفصیلی راہ نمائی فرمادیں۔
واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ میں مطلقہ عورتوں کے نان و نفقہ اور دیگر ذمّہ داریوں کے سلسلے میں مکمل ضابطہ اور راہ نمائی موجود ہے۔ چنانچہ عورت جب تک بیوی ہونے کی حیثیت سے اپنے شوہر کے ساتھ رہتی ہے تو اس کے تمام تر ضروری اخراجات کی ذمّہ داری شوہر پر ہوتی ہے، اگرچہ بیوی کتنی ہی مالدار کیوں نہ ہو، اسی طرح طلاق کے بعد شوہر صرف عدت کی مدت تک ہی مطلقہ کی رہائش کا انتظام اور اس کے نان نفقہ ادا کرنے کا پابند ہوتا ہے۔ عدت کے ایام گذر جانے کے بعد دوسری جگہ نکاح کرنے کے سلسلے میں عورت آزاد ہوتی ہے اور سابق شوہر اب اس کے اخراجات پورا کرنے اور اس کی دیکھ بھال کرنے کا ذمّہ دار نہیں رہتا، بلکہ عدت کے بعد اگر اس کے پاس مال و دولت موجود ہو تو اپنی ضروریات خود ہی پورا کرےگی، ہاں اگر اس کے پاس مال و دولت نہ ہو اور وہ اپنے والدین کے ساتھ رہتی ہو تو ایسی صورت میں اس کی ضروریات کی تکمیل والد کے ذمّہ ہے، اس کے بعد بھائی اور قریبی رشتہ دار اس کی ذمّہ داری اٹھائیں گے، اور اگر طلاق یافتہ عورتوں کی ذمّہ داری اٹھانے والا کوئی نہ ہو تو حکومتِ وقت کی ذمّہ داری ہے کہ وہ ان عورتوں کی کفالت کرے اور ان کی ضروریات پورا کرنے کا بندوبست کرے، اس طرح اسلام نے مطلقہ خواتین کی ذمّہ داری اٹھانے کا پورا نظامِ کار بنایا ہے۔
اس کے برخلاف غیر مسلم ممالک کے خود ساختہ قوانین جس میں طلاق و عدت کے بعد بھی نان و نفقہ کے نام پر ناحق اخراجات طلاق دینے والے شوہر کے ذمّہ عائد کیے جاتے ہیں اور اس کی جائیداد کا آدھا حصّہ مطلقہ کو دلایا جاتا ہے وہ سراسر ظلم اور قانونِ شرع کے مخالف و متصادم ہے، لہٰذا ایک مسلمان کےلیے ان ناجائز و خلافِ شرع قوانین کو اپنے مفاد کے حصول کےلیے استعمال کرنا اور احکم الحاکمین کے قوانین کی خلاف ورزی کرنا کسی طرح جائز نہیں ہے۔
اس تمہید کے بعد استفتاء میں ذکر کردہ سوالات کے جوابات یہ ہیں:
1۔ جب شوہر اپنی بیوی کو زبانی یا تحریری طور پر طلاق دےدے تو شرعًا عورت پر طلاق واقع ہوجاتی ہے، اور طلاق یافتہ عورت صرف عدت کے دنوں کے نان و نفقہ اور ضروری اخراجات کی مستحق ہوتی ہے، بشرطیکہ عدت اپنے شوہر کے گھر گزارے، طلاق یافتہ عورت اگر بلا وجہ شرعی شوہر کے گھر کے علاوہ عدت کہیں اور گزارتی ہے تو ایسی صورت میں وہ نان و نفقہ کی مستحق نہیں ہوتی، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں شرعی طلاق کے بعد جرمن لاء کے مطابق مطلقہ نے ڈھائی سال تک نان و نفقہ کے نام پر جو رقم لی ہے شرعًا وہ اس کی مستحق نہیں تھی، اور مطلقہ کےلیے اس کا لینا جائز نہیں تھا،اسی طرح خلافِ شرع ہونے کی وجہ سے شوہر کےلیے بھی اس مد میں رقم دینا شرعًا جائز نہیں تھا، تاہم اگر شوہر اس رقم کی واپسی کا مطالبہ کرنا چاہے تو کرسکتا ہے۔
نیز اگر جرمن لاء کے مطابق بھی طلاق ہوجائے تو اس کے بعد عورت الگ سے نان و نفقہ کی مستحق نہیں ہوگی، اور نہ ہی اس پر دوبارہ عدت لازم ہوگی، اس لیے کہ مطلقہ نان و نفقہ کی مستحق طلاقِ شرعی کے بعد ہوتی ہے، بشرطیکہ عدت شوہر کے گھر گزارے، اور طلاق کی قانونی کاروائی کو شرعی طلاق کے قائم مقام قرار نہیں دیا جاسکتا۔
2۔ جرمن لاء کے مطابق مطلقہ بیوی کو شوہر کی جائیداد، مال و مکان میں سے جو آدھا حصّہ دیا جاتا ہے، شرعًا وہ ناحق ہونے کی وجہ سے عورت کےلیے اس کا لینا جائز نہیں ۔
3۔ جرمن لاء کے مطابق شوہر کی ماہانہ آمدنی میں سے بطورِ نان و نفقہ مطلقہ کو جو رقم دی جاتی ہے شرعًا عورت اس کی حق دار نہیں ہے، اور اس کےلیے اس رقم کا لینا جائز نہیں ۔
4۔ طلاق کے بعد جب بچے اپنی والدہ کی زیرِ تربیت ہوں تو بچے اپنے والد سے اور والد اپنے بچوں سے ملاقات کرسکتا ہے، مطلقہ بیوی کو شرعًا یہ حق نہیں ہے کہ وہ انہیں آپس میں ملاقات کرنے سے روکے، لہٰذا اگر وہ جرمن لاء کو استعمال کرتے ہوئے بچوں کو والد سے ملاقات کرنے سے روکنے کی کوشش کرے گی تو عند اللہ جواب دہ ہوگی۔
5۔ واضح رہے کہ بچے کی پرورش اور حضانت کا حق اصلاً ماں کو حاصل ہے، کیوں کہ بچے اپنے روزمرہ کی ضروریات کھانے، پینے اور استنجا وغیرہ میں مدد اور تعاون کے محتاج ہوتے ہیں، یہ امور والدہ یا دوسری کوئی عورت ہی بخوبی انجام دے سکتی ہے، مرد کے لیے ان امور کو سر انجام دینا آسان نہیں، اس لیے شرعًا لڑکا سات سال اور لڑکی نو سال کی عمر تک پرورش کی خاطر ماں کے پاس رہتی ہے، پھر اس مدت کے بعد والد کو اپنے پاس رکھنے کا حق ہوتا ہے ، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں دونوں بچیوں (جن کی عمریں 14 اور 11 سال ہیں ، اگر والد ان بچیوں کو اپنی تحویل میں لینا چاہے تو لے سکتا ہے، جب کہ بیٹا جس کی عمر چھ سال ہے وہ سات سال مکمل ہونے تک اپنی والدہ کی پرورش میں رہے گا، پھر اس کے بعد والدکو اپنے پاس رکھنے کا حق ہوگا۔
6۔ جب بچہ یا بچی عمر کی اس حد کو پہنچ جائے جس میں ان کی تعلیم و تربیت کی ذمّہ داری شرعًا والد پر ہوتی ہو اور والد اس ذمّہ داری کے اٹھانے کا اہل بھی ہو تو ایسی صورت میں بچوں کی والدہ کو یہ حق نہیں ہوگا کہ وہ غیر شرعی ذرائع و قوانین کا استعمال کرکے بچوں کو ان کے والد کی تحویل میں دینے سے رکاوٹ بنے یا بچوں کو والد سے لےلے، ایسا کرنے پر وہ گناہ گار ہوگی۔
7۔ طلاق کے بعد جب بچے پرورش کی خاطر اپنی والدہ کے پاس ہوں، اس دوران والد کی طرف سے بچوں کےلیے جو نان و نفقہ دیا جاتا ہے وہ صرف بچوں کا حق ہوتا ہے، والد کی اجازت کے بغیر والدہ اسے اپنے ذاتی استعمال میں نہیں لا سکتی۔
قرآنِ کریم میں ہے:
"يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْباطِلِ إِلَاّ أَنْ تَكُونَ تِجارَةً عَنْ تَراضٍ مِنْكُمْ." [سورة النساء، آية:29]
ترجمہ: ”اے ایمان والو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق طور پر مت کھاؤ، لیکن کوئی تجارت ہوجو باہمی رضامندی سے ہو تو مضائقہ نہیں۔“ (از بیان القرآن)
حدیث شریف میں ہے:
"عن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ألا تظلموا ألا لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه»."
(مشكاة المصابيح، باب الغصب والعارية، الفصل الثاني، ج:2، ص:889، رقم الحدیث:2946، ط:المكتب الإسلامي بيروت)
ترجمہ: ’’حضرت ابوحرۃ رقاشی رحمہ اللہ تعالیٰ اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خبردار! کسی پر ظلم نہ کرنا، اچھی طرح سنو کہ کسی دوسرے شخص کا مال اس کی خوشی کے بغیر حلال نہیں ہے۔‘‘ (از مظاہرِ حق)
مجلۃ الاحکام العدلیۃ میں ہے:
"(المادة:97): لا يجوز لأحد أن يأخذ مال أحد بلا سبب شرعي."
(المقدمۃ، المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية الفقهية، ص:27، ط:قديمي كتب خانه آرام باغ كراتشي)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"والحاصل: أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لايحل له ويتصدق به بنية صاحبه."
(کتاب البیوع، باب البیع الفاسد، مطلب فيمن ورث مالا حراما، ج:5، ص:99، ط:ایج ایم سعید)
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
"المعتدة عن الطلاق تستحق النفقة والسكنى كان الطلاق رجعيا أو بائنا، أو ثلاثا حاملا كانت المرأة، أو لم تكن كذا في فتاوى قاضي خان الأصل أن الفرقة متى كانت من جهة الزوج فلها النفقة، وإن كانت من جهة المرأة إن كانت بحق لها النفقة، وإن كانت بمعصية لا نفقة لها ..... والمعتدة إذا كانت لا تلزم بيت العدة بل تسكن زمانا وتبرز زمانا لا تستحق النفقة كذا في الظهيرية. ولو طلقها، وهي ناشزة فلها أن تعود إلى بيت زوجها، وتأخذ النفقة ..... وكما تستحق المعتدة نفقة العدة تستحق الكسوة كذا في فتاوى قاضي خان ويعتبر في هذه النفقة ما يكفيها وهو الوسط من الكفاية وهي غير مقدرة؛ لأن هذه النفقة نظير نفقة النكاح فيعتبر فيها ما يعتبر في نفقة النكاح."
(كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الثالث في نفقة المعتدة، ج:1، ص:558،557، ط:المكتبة الرشيدية كوئته)
البحر الرائق ميں ہے:
"المعتدة إذا خرجت من بيت العدة تسقط نفقتها ما دامت على النشوز فإن عادت إلى بيت الزوج كان لها النفقة و السكنى، ثم الخروج عن بيت العدة على سبيل الدوام ليس بشرط لسقوط نفقتها فإنها إذا خرجت زمانا وسكنت زمانا لاتستحق النفقة."
(کتاب الطلاق، باب النفقة، ج:4، ص:217، ط:دار الكتاب الإسلامي بيروت)
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
"الولد متى كان عند أحد الأبوين لا يمنع الآخر عن النظر إليه وعن تعاهده كذا في التتارخانية ناقلا عن الحاوي."
(کتاب الطلاق، الباب السادس عشر في الحضانة، فصل مكان الحضانة مكان الزوجين، ج:1، ص:543، ط:المكتبة الرشيدية كوئته)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"فلو (أخذ المطلق ولده منها لتزوجها) جاز (له أن يسافر به إلى أن يعود حق أمه) كما في السراجية، وقيده المصنف في شرحه بما إذا لم يكن له من ينتقل الحق إليه بعدها، وهو ظاهر.
وفي الحاوي: له إخراجه إلى مكان يمكنها أن تبصر ولدها كل يوم كما في جانبها فليحفظ.
قلت: وفي السراجية: إذا سقطت حضانة الأم وأخذه الأب لا يجبر على أن يرسله لها، بل هي إذا أرادت أن تراه لا تمنع من ذلك.
وفي الرد: ويؤيده ما في التتارخانية: الولد متى كان عند أحد الأبوين لا يمنع الآخر عن النظر إليه وعن تعهده. اهـ. ولا يخفى أن السفر أعظم مانع. (قوله: كما في جانبها) أي كما أنها إذا كان الولد عندها لها إخراجه إلى مكان يمكنه أن يبصر ولده كل يوم."
(كتاب الطلاق، باب النفقة، ج:3، ص:571، ط: ايج ايم سعيد)
بدائع الصنائع میں ہے:
"وأما بيان من له الحضانة، فالحضانة تكون للنساء في وقت، وتكون للرجال في وقت، والأصل فيها النساء؛ لأنهنّ أشفق وأرفق وأهدى إلى تربية الصغار، ثم تصرف إلى الرجال؛ لأنهم على الحماية والصيانة وإقامة مصالح الصغار أقدر."
(كتاب الحضانة، فصل في بيان من له الحضانة، ج:4، ص:41، ط:ایج ایم سعید)
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
"أحق الناس بحضانة الصغير حال قيام النكاح أو بعد الفرقة الأم إلا أن تكون مرتدة أو فاجرة غير مأمونة كذا في الكافي......والأم والجدة أحق بالغلام حتى يستغني وقدر بسبع سنين وقال القدوري حتى يأكل وحده ويشرب وحده ويستنجي وحده وقدره أبو بكر الرازي بتسع سنين والفتوى على الأول والأم والجدة أحق بالجارية حتى تحيض وفي نوادر هشام عن محمد - رحمه الله تعالى - إذا بلغت حد الشهوة فالأب أحق وهذا صحيح هكذا في التبيين."
(کتاب الطلاق،الباب السادس عشر في الحضانة، ج:1، ص:542،141، ط:المكتبة الرشيدية كوئته)
مجمع الانہر میں ہے:
"(ويكون الغلام عندهن حتى يستغني عنها بأن يأكل) وحده (ويشرب) وحده (ويلبس) وحده (ويستنجي) أي يمكنه أن يفتح سراويله عند الاستنجاء ويقدر على الطهارة ويشده بعده (وحده) حال أو ظرف (وقدر بتسع أو سبع) أي قدر مدة الاستغناء أبو بكر الرازي بتسع سنين والخصاف بسبع سنين وعليه الفتوى كما في أكثر الكتب اعتبارا للغالب. وفي الخانية إن اختلفا في سنه لا يحلف القاضي واحدا منهما بل ينظر إن وجده مستغنيا كما مر يدفعه إلى الأب؛ لأنه إذا استغنى يحتاج إلى التأديب والتخلق بآداب الرجال وأخلاقهم والأب أقدر على ذلك (ثم يجبر الأب) أو الوصي أو الولي (على أخذه) ؛ لأن الصيانة عليه. (و) تكون (الجارية عند الأم أو الجدة حتى تحيض) عند الشيخين؛ لأنهما بعد الاستغناء تحتاج إلى معرفة آداب النساء والمرأة على ذلك أقدر والغلام بعد البلوغ يحتاج إلى التحصين والحفظ والأب فيه أقدر (وعند محمد حتى تشتهى) لاحتياجها إلى الحفظ.وفي شرح نفقات الخصاف الجارية تكون عند أمها حتى تحيض عند الطرفين وعند أبي يوسف حتى تشتهى وهكذا روي عن محمد فتبين أن في المسألة روايتين."
(کتاب الطلاق،باب الحضانۃ،ج:1،ص:481،ط:دار احیاء التراث العربی بیروت)
درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:
"لا يجوز لأحد أن يتصرف في ملك الغير بلا إذنه هذه المادة مأخوذة من المسألة الفقهية (لا يجوز لأحد التصرف في مال غيره بلا إذنه ولا ولايته)."
(المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية الفقهية، المادۃ:96، ج:1، ص:96، ط: دار الجيل بیروت)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144603103083
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن