بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق کے بعد میاں بیوی کا ایک گھر میں رہنا


سوال

کیا عورت طلاق کی عدت گزار نے کے بعد بچوں کے ساتھ شوہر کے گھر میں رہ سکتی ہے شوہر سے پردہ کر کے اگر طلاق بائن ہوئی ہو؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں ان کا  مکان اگر اتنا بڑاہے کہ دونوں اس میں اپنی  اولاد کے ساتھ پردہ کا خیال کرتے ہوئے  اجنبیوں کی طرح الگ الگ اس طرح رہ  سکتے ہوں کہ دونوں کے کمرے الگ ہوں، اور ان کا آمنا سامنا نہ ہو، اور گناہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہ ہو تو مذکورہ طریقہ سے وہ ایک مکان میں  اپنی اولاد کے ساتھ رہ سکتے ہیں، دونوں کا تنہا ایک گھر میں رہنا کسی بھی صورت میں درست نہیں  ہے،  اور اگر مذکورہ مکان میں مذکورہ بالا طریقہ کے مطابق نہیں رہ سکتے،  یا دونوں کے  گناہ میں مبتلا  ہوجانے کا اندیشہ ہو تو  ایسی صورت میں بالکل علیحدگی اختیار کرنا ضروری ہے، اور ایک مکان  میں رہنا جائز  نہیں ہوگا۔

الدر المختار میں ہے:

"ولهما أن يسكنا بعد الثلاث في بيت واحد إذا لم يلتقيا التقاء الأزواج، ولم يكن فيه خوف فتنة انتهى.

وسئل شيخ الإسلام عن زوجين افترقا ولكل منهما ستون سنة وبينهما أولاد تتعذر عليهما مفارقتهم فيسكنان في بيتهم ولا يجتمعان في فراش ولا يلتقيان التقاء الأزواج هل لهما ذلك؟ قال: نعم، وأقره المصنف.

(قوله: وسئل شيخ الإسلام) حيث أطلقوه ينصرف إلى بكر المشهور بخواهر زاده، وكأنه أراد بنقل هذا تخصيص ما نقله عن المجتبى بما إذا كانت السكنى معها لحاجة، كوجود أولاد يخشى ضياعهم لو سكنوا معه، أو معها، أو كونهما كبيرين لا يجد هو من يعوله ولا هي من يشتري لها، أو نحو ذلك."

(كتاب الطلاق، باب  العدۃ، فصل في الحداد، 3 /538، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402100011

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں