بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق کی صورت میں بچی کا حقِّ پرورش اور مہر کا حکم


سوال

میں نے ایک لڑکی سے شادی کی ،لیکن اب وہ لڑکی مجھے بہت تنگ کررہی ہے  اور  بار بار  مجھے یہ کہتی ہے کہ مجھے طلاق دو ،اب سوال یہ ہے کہ میری  ایک بیٹی ہے تو اگر میں طلاق دے دیتا ہوں تو یہ بچی کس کو ملے گی ؟اور کیا بیٹی مہر دونوں میری بیوی کو ملیں گے؟

جواب

واضح رہے کہ نا حق و بلا وجہِ شرعی بیوی کی طرف سے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرنا  ناجائز ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی عورتوں کے  لیے سخت مذمت اور وعید بیان فرمائی ہے۔

  سنن ابی داود میں ہے:

"عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَيُّمَا امْرَأَةٍ سَأَلَتْ زَوْجَهَا طَلَاقًا فِي غَيْرِ مَا بَأْسٍ، فَحَرَامٌ عَلَيْهَا رَائِحَةُ الْجَنَّةِ»."

( سنن أبی داود، کتاب الطلاق، باب الخلع،رقم الحدیث: 2226)

لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل کو چاہیے کہ طلاق یا خلع کے اقدام سے قبل اپنی بیوی کو وعظ و نصیحت کرے، اسے سمجھائے اور بہتر یہ ہے کہ دونوں خاندانوں کے معزز اور سمجھ دار بزرگ افراد کے ذریعے اس مئلے کو حل کرانے کی کوشش کرے۔ تاہم اگر معاملہ طلاق تک پہنچ  جائےتو  طلاق کی صورت میں علیحدگی کے بعدبچی کی پرورش نو  سال کی عمر تک ماں کا حق ہے، اس کے بعد باپ اپنی تحویل میں لے سکتا ہے، اور اگر اس دوران بچی کی ماں نے کسی ایسے شخص سے نکاح کرلیا جو بچی کے حق میں اجنبی یعنی نا محرم تو یہ حق بچی کی نانی، دادی، خالہ اور پھر پھوپھی کو بالترتیب حاصل ہوگا ۔اور اس کا خرچہ بہر صورت  باپ کے ذمہ ہوگا۔ نیز طلاق کی صورت میں عورت مہر کی حق دار بھی ہوگی۔

  الدر المختار میں ہے:

"و الحاضنة أما أو غیرهاأحق به أي بالغلام حتی یستغنی عن النساء وقدر بسبع، وبه یفتیٰ؛لأنه الغالب.... (والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية...(وغيرهما أحق بها حتى تشتهى) وقدر بتسع وبه يفتى."

(ردالمحتار٣/٥٦٦، سعيد)

وفیہ ایضا:

"ويتأكد (عند وطء أو خلوة صحت) من الزوج (أو موت أحدهما)."

(رد المحتار، كتاب النكاح، باب المهر،٣/١٠٢، سعيد).

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100470

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں