بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

طلاق کے بعد گارڈین شپ شوہر کو دینا کیسا ہے؟


سوال

میرا ایک بیٹا ہے، جب وہ سات ماہ کا تھا تو ہم میاں بیوی کے درمیان جدائی ہوگئی تھی، بچہ کی ماں بچہ مجھے دے گئی، اب وہ بچہ تین سال کا ہوچکا ہے، اسے ہم نے اسکول اور مدرسہ میں داخل کروانا ہے، اور داخلہ کےلیے بچہ کا ”ب“ فارم ہونا ضروری ہے، اور اس کےلیے بچہ کی ماں کا دفتر میں حاضر ہونا ضروری ہے، اب وہ یا بچہ کی نانی  بچہ کو اپنے پاس بھی نہیں رکھتیں، اور بچہ کی سرپرستی کا (قانونی) اختیار (guardianship)   بھی مجھے نہیں دے رہیں، اور کہتی ہے کہ یہ شرعاً ناجائز ہے، بچہ کی پرورش دادی (میری والدہ) نے کی ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں بچہ کی والدہ اور نانی نے اپنی مرضی سے بچہ کی پرورش کا حق ساقط کردیا ہےاور اب بھی ان کا مطالبہ نہیں ہے، تو بچہ کی دادی کو شرعاً یہ حق حاصل ہوچکا ہے۔

لہٰذا اب اس کےلیے قانوناً اگر کسی کاغذی کارروائی کی ضرورت ہے تو والدہ پر لازم ہے کہ متعلقہ دفتر میں باپردہ حاضر ہوکر ضروری کارروائی کرکے یہ اختیار والد کے سپرد کریں، تاکہ بچی کی تعلیمی ودیگر ضروریات کو پورا کرنے میں پریشانی نہ ہو۔

جب والدہ اور نانی کی رضامندی سے بچی دادی کے پاس رہ رہی ہے تو والدہ اور نانی کے قانونی معاملات میں تعاون کرنے میں شرعاً کوئی گناہ نہیں ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى لأنه الغالب. ولو اختلفا في سنه، فإن أكل وشرب ولبس واستنجى وحده دفع إليه ولو جبرا وإلا لا."

(کتاب الطلاق، باب الحضانة، ج:3، ص:566، ط:سعيد)

وفيه أيضا:

"وإذا أسقطت الأم حقها صارت كميتة، أو متزوجة فتنتقل للجدةبحر.

(قوله: فتنتقل للجدة) أي تنتقل الحضانة لمن يلي الأم في الاستحقاق كالجدة إن كانت،وإلا فلمن يليها فيما يظهر، واستظهر الرحمتي أن هذا الإسقاط لا يدوم فلها الرجوع لأن حقها يثبت شيئا فشيئا فيسقط الكائن لا المستقبل اهـ أي فهو كإسقاطها القسم لضرتها، فلا يرد أن الساقط لا يعود لأن العائد غير الساقط، بخلاف إسقاط حق الشفعة.

ثم رأيت بخط بعض العلماء: وعن المفتي أبي السعود: مسألة في رجل طلق زوجته ولها ولد صغير منه وأسقطت حقها من الحضانة وحكم بذلك حاكم فهل لها الرجوع بأخذ الولد؟ الجواب: نعم لها ذلك فإن أقوى الحقين في الحضانة للصغير، ولئن أسقطت الزوجة حقها فلا تقدر على إسقاط حقه أبدا. اهـ."

(كتاب الطلاق، باب الحضانة، ج:3، ص:559، ط:سعيد)

 فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144606100494

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں