بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق دینے کی صورت میں تعزیرِ مالی کا حکم / جہیز و مہر کا حکم


سوال

 میری بہن کا نکاح میرے ایک عزیز کے ساتھ اس شرط پر ہوا کہ اگر لڑکے نے لڑکی کو طلاق دی تو دولاکھ روپے جرمانہ دے گا، لیکن میرے بہنوئی نے بغیر جرمانہ ادا کیے میری بہن کو ایک ہی نشست میں تین طلاقیں دے دی ہے، اب پوچھنا یہ ہے کہ:

1۔کیا طلاق واقع ہوئی ہے یا نہیں؟ کسی مسلک سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ایک طلاق واقع ہوئی ہے، اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟

2۔اور جہیز کا کیا ہوگا؟ وہ کس کے پاس جائے گا؟ اور حق مہر کا کیا ہوگا؟

3۔کیا لڑکے سے طلاق دینے کی وجہ سے  جرمانہ وصول کیا جاسکتا ہے یا نہں؟

جواب

1-2۔صورتِ مسئولہ میں  طلاق کے الفاظ کیا ہیں؟اس کی وضاحت کریں نیز واضح کیجیے کہ نکاح کے بعد میاں بیوی نے جسمانی تعلق قائم کیا تھا یا کم سے کم خلوتِ صحیحہ یعنی بغیر کسی رکاوٹ کے تنہائی میسر ہوئی تھی یانہیں؟ ان دونوں باتوں کی وضاحت کرکے  دوبارہ دار الافتاء سے رجوع کیاجائے، تاکہ وقوعِ طلاق یا عدمِ  وقوعِ طلاق اور مہر کے بارے میں شرعی حکم  بتانا ممکن ہو، البتہ جہیز کے بارے میں شرعی حکم یہ ہے کہ جہیز ہر حال میں (یعنی طلاق سے قبل اور طلاق کے بعد) لڑکی کی ملکیت ہے۔

3۔لڑکی والوں کی طرف سے یہ شرط لگانا کہ اگر لڑکے نے طلاق دے دی تو  دو لاکھ روپے جرمانہ دینا ہوگا، یہ شرط شرعاً جائز نہیں  تھی، اس لیےطلاق دینے کے بعد  لڑکے سے جرمانہ وصول کرنا جائز نہیں ہے۔

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

 "فالكتاب والسنة وإجماع السلف توجب إيقاعَ الثلاث معًا وإِن كانت معصية."

(ج:1، ص:529 ، ط: قدیمی)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإن كان الطلاق ثلاثًا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجًا غيره نكاحًا صحيحًا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية. ولا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولاً بها أو غير مدخول بها، كذا في فتح القدير. ويشترط أن يكون الإيلاج موجبًا للغسل وهو التقاء الختانين، هكذا في العيني شرح الكنز".

 (کتاب الطلاق، فصل فیماتحل به المطلقة ومایتصل به، ج:1، ص:473، ط:رشیدیه)

فتاوی شامی میں ہے:

"مطلب في التعزير بأخذ المال (‌قوله ‌لا ‌بأخذ ‌مال ‌في ‌المذهب) قال في الفتح: وعن أبي يوسف يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال. وعندهما وباقي الأئمة لا يجوز. اهـ. ومثله في المعراج، وظاهره أن ذلك رواية ضعيفة عن أبي يوسف. قال في الشرنبلالية: ولا يفتى بهذا لما فيه من تسليط الظلمة على أخذ مال الناس فيأكلونه اهـ ومثله في شرح الوهبانية عن ابن وهبان......... وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. اهـ والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال".

(کتاب الحدود، باب التعزیز، ج:4، ص:62، ط: سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(جهز ابنته بجهاز وسلمها ذلك ليس له الاسترداد منها ولا لورثته بعد أن سلمها ذلك وفي صحته) بل تختص به (وبه يفتى)".

(كتاب النكاح، باب المهر،ج:3،ص:155،ط:سعيد)

وفيہ ایضاً:

"فإن كل أحد يعلم ‌أن ‌الجهاز ملك المرأة وأنه إذا طلقها تأخذه كله، وإذا ماتت يورث عنها".

(كتاب النكاح، باب المهر،ج:3،ص:153،ط:سعيد)

وفیہ ایضاً:

"(و) يجب (نصفه بطلاق قبل وطء أو خلوة).

(قوله: ويجب نصفه) أي نصف المهر المذكور، وهو العشرة إن سماها أو دونها أو الأكثر منها إن سماه".

(كتاب النكاح، باب المهر، ج:3، ص:104، ط:سعيد)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"والمهر يتأكد بأحد معان ثلاثة: الدخول، والخلوة الصحيحة، وموت أحد الزوجين سواء كان مسمى أو مهر المثل حتى لا يسقط منه شيء بعد ذلك إلا بالإبراءمن صاحب الحق، كذا في البدائع، وإن تزوجها ولم يسم لها مهرا أو تزوجها على أن لا مهر لها فلها مهر مثلها إن دخل بها أو مات عنها، وكذا إذا ماتت هي."

(کتاب النکاح، الفصل الثاني فيما يتأكد به المهر والمتعة، ج:1، صفحه: 303-304، ط: رشيديه)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144405100408

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں