میرے ایک دوست نے بیوی کو لڑائی میں غصے میں کہا (ان عورتوں کو بندہ کیا کرے)، طلاق کی نیت نہیں تھی، کیا یہ طلاق کے کنایہ الفاظ میں آتاہے؟ کیا ان الفاظ سے نکاح پر کوئی اثر پڑے گا؟
واضح رہے کہ طلاق واقع ہونے کے لیے ضروری ہے کہ جس لفظ سے طلاق دی جاتی ہے وہ طلاق کے معنی پر دلالت بھی کرتا ہو، اگر کسی لفظ میں طلاق کا مفہوم ہی نہ پایا جاتا ہو تو اس سے طلاق واقع نہیں ہوتی اگرچہ طلاق کی نیت بھی کیوں نہ کی جائے۔
صورتِ مسئولہ میں سائل کے دوست کا اپنی بیوی کو یہ کہنا کہ ’’ان عورتوں کو بندہ کیا کرے‘‘ ایسا جملہ ہے جس میں طلاق کا مفہوم پایا ہی نہیں جاتا، اس لیے اس سے الفاظِ طلاق (کنایہ یا صریح) میں سے نہ ہونے کی بنا پر طلاق واقع نہیں ہوئی۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(قوله وركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية."
(کتاب الطلاق، رکن الطلاق، ج:3، ص:230، ط:سعید)
بدائع الصنائع میں ہے:
"وكذا كل لفظ لا يحتمل الطلاق لا يقع به الطلاق، وإن نوى."
(كتاب الطلاق، فصل فی الکنایۃ فی الطلاق، ج:3، ص:108، ط:دار الکتب العلمیۃ)
شرح منار الانوار میں ہے:
"والأصل أن موجب اللفظ يثبت باللفظ و لايفتقر إلي النية، و محتمل اللفظ لايثبت إلا إذا نوى، و ما لايحتمل اللفظ لايثبت وإن نوى."
(الامر لایقتضی التکرار و لایحتملہ، ص:31، ط:دار الکتب العلمیۃ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144402101435
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن