تکیہ، خوشبو اور دودھ کو منع نہیں کرنا چاہیے۔ ایسا کیوں؟
اگر کوئی دودھ کا پوچھے اور پیٹ بھرا ہو تو کیا کرنا چاہیے؟
اگر کوئی منع کرے دودھ کو بلا عذر تو گناہ ملے گا؟
ایک مسلمان کو چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کو بغیر کسی وجہ کے قبول کر کے اس پر عمل کرنے کی کوشش کرے، اس میں وجہ اور علت سمجھ آئے یا نہ آئے، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے سوال میں ذکر کردہ نبوی ارشاد کی یہ علت بیان فرمائی ہے کہ یہ تینوں چیزیں (تکیہ، دودھ اور خوشبو) ایسی ہیں کہ ان چیزوں کی طرف طبیعتِ انسانی کا میلان ہوتا ہے اور ان کے دینے میں دینے والے پر کوئی بوجھ بھی نہیں ہوتا،جس کی وجہ سے انکار کرنے والے کے پاس یہ عذر بھی باقی نہیں رہتا کہ وہ یوں کہے کہ میں اس کو اس لیے قبول نہیں کر رہا کہ دینے والے کو تکلیف نہ ہو۔
اس کے باوجود اگر کوئی اِن اشیاء کو رد کرتا ہے تو یہ تکبر ہی معلوم ہوتا ہے، لہذا تکبر کے شائبہ کو بھی ختم فرماتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم ارشاد فرمایا ہے۔
اگر کسی شخص کو دودھ پیش کیا جائے اور چاہت نہ ہو تو وضاحت کر کے معذرت کر لے۔
باقی اس حدیث کے ذیل میں شارحین نے اس کی جو شرح بیان فرمائی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حدیث کے مقتضیٰ پر عمل کر لینا بہتر ہے، اگر کوئی نہیں کرتا تو اس کے اوپر کوئی گناہ نہ ہو گا۔
الکوکب الدری میں ہے:
"قوله [ثلاث لا ترد] لأن الطباع مائلة إليها فالرد فيها لا يكون إلا محضًا من التكلف الظاهري إذ ليس فيها مؤنة وشقة على المهدي حتى يتعلل بأن الرد لأجل الإبقاء عليه فلا يكون إلا تكبرًا، قوله [والدهن] أي العطر فإنه لا يكون إلا دهنًا."
(ابواب الاستیذان، باب في كراهية خروج المرأة متعطرة، جلد:3، صفحہ: 411، طبع: مطبعة ندوة العلماء الهند)
فیض القدیر میں ہے:
"(ثلاث لا ترد) أي لا ينبغي ردها."
(حرف الثاء، جلد:3، صفحہ: 310، طبع:المكتبة التجارية الكبرى - مصر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144504101954
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن