بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تکرار جماعت، (فرض / تراویح) ایک مسجد میں کرنے کا شرعی حکم


سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ میں کہ ہماری مسجد کی بالائی منزل پر مدرسہ کے منتظمین درج ذیل امور کا ارتکاب کرتےہیں، آیا یہ شرعا جائز ہے یا نا جائز ؟

(1) مسجد کی زمینی منزل پر نماز با جماعت کے وقت جگہ ہونے کے باوجود او پر کی پہلی منزل پرہی امام کی اقتداء  کرتے ہیں،  اور نیچے نہیں آتے ،  کیانیچے مسجد میں بوقت جماعت جگہ ہونے کے باجود داو پر کی منزل سے امام کی اقتداء کرنا درست ہے؟

(2) رمضان المبارک میں مسجد کی پہلی منزل پر دس روزہ تراویح کی الگ جماعت ہوتی ہے،  جو کہ لوڈ سپیکر  پر ادا کی جاتی ہے،  جس سے بسا اوقات  نیچے  مسجد کے نمازیوں کی نماز میں خلل پڑتا ہے،  کیا یہ عمل درست ہے؟ اور مسجد کی چھت پر تراویح کی دوسری جماعت کن شرائط پر جائز ہے؟

(۳) مسجد کی چھت پر تراویح میں ختم قرآن کے بعد بھی نیچے  ختم قرآن ہونے تک مختصر تراویح کی امامت بھی حسب معمول لاؤڈ اسپیکر پر جاری رہتی ہے،  جب کہ عین اس وقت نیچے مسجد میں تراویح میں ختم قرآن سنایا جار ہا ہوتا ہے،  کیا ایسا کرنا درست ہے؟

(4) گزشتہ دنوں مسجد کی چھت پر الگ اذان واقامت کے ساتھ فرض کی دوسری جماعت بھی کرائی جانے لگی ہے، جس میں فقط مدرسہ کے طلبہ د اساتذہ شریک ہوتے ہیں، جب کہ تمام اہل محلہ نمازی نیچے ہی نماز پڑھتے ہیں،  بعد میں اذ ان تو بند کر دی گئی مگر فرض کی دوسری جماعت تا حال کرائی جارہی ہے، چنانچہ مسجد کی فرض جماعت سے قبل یا بعد میں، یا عین اس وقت مسجد کے اوپر قاری صاحبان وطلبہ آپس میں فرض کی دوسری جماعت کرارہے ہوتےہیں، اس کی وجہ امام صاحب سے اختلاف بتاتے ہیں، کیا ایسا کرنے کے لئے شرعا کوئی جواز بن سکتا ہے؟

برائے کرم شریعت مطہرہ کی روشنی میں واضح فرمائیں کہ یہ تمام امور شرعاً جائز ہیں یا نہیں؟ اور درست نہ ہو تو شرعاً اس میں کون گنہگار ہوگا ؟ نیز امامت کرانے والے کے لئے مدرسہ کے منتظمین کا یہ حکم ماننا جائز ہوگا ؟ اس کی جلد وضاحت مطلوب ہے تا کہ مسجد کے نمازیوں کی تشویش دور کی جاسکے۔

جواب

واضح رہے کہ ایک مسجد میں فرائض کی متعدد جماعت کرانا مکروہ ہے، اور جس مسجد میں فرض کی متعدد جماعت مکروہ ہے وہاں اذان کا تکرار بھی مکروہ ہے ،نیز    تراویح کی نماز میں بھی  افضل یہی ہے کہ سب ایک ہی امام کے پیچھے تراویح پڑھیں، تاہم اگر   اماموں کی آوازیں آپس میں نہ ٹکرائیں  اور باہمی اختلاف کا اندیشہ بھی نہ ہو تو ایک مسجد میں تراویح  کی  متعدد جماعتیں کرائی جاسکتی ہیں ۔

  لہذا   صورتِ مسئولہ میں  مذکورہ مسجد کی حدود  میں چھت پر  مرکزی  مصلی کی نماز اور اذان  کے علاوہ اذان دینا اور فرض کی نماز پڑھنا  مکروہ ہے، اور اس سے اجتناب ضروری ہے۔

تاہم تراویح کی   دو جماعتیں ،   ایک مسجد کے ہال   میں اور دوسری مسجد کی چھت پر  کرانے کی  گنجائش  ہے بشرطیکہ اماموں کی آوازیں آپس میں نہ ٹکرائیں، اور عشاء کی نماز ایک امام (مرکزی مصلے پر موجود) کے پیچھے پڑھی جائے، لیکن اگر فرض کی نماز  بھی الگ الگ پڑھی جارہی ہو تو یہ جائز نہیں ہے، اسی طرح اگر تراویح کی متعدد جماعت کی صورت میں  ایک دوسرے تک آواز پہنچنے کی وجہ سے خلل واقع ہو یا مرکزی مصلی کی تراویح کی جماعت  میں مقتدیوں کو پریشانی لاحق ہو تو پھر ایسی صورت میں تراویح کی  متعدد جماعت کرانے کی بھی اجازت نہیں ہے۔

"البحر الرائق شرح كنز الدقائق"  میں ہے:

"وفي المجتبى ويكره تكرارها في مسجد بأذان وإقامة، وعن أبي يوسف إنما ‌يكره ‌تكرارها بقوم كثير أما إذا صلى واحد بواحد واثنين فلا بأس به، وعنه لا بأس به مطلقا إذا صلى في غير مقام الإمام."

(کتاب الصلاۃ، باب الإمامة، ج:1، ص:376، ط:دار الكتاب الإسلامي)

وفیہ ایضاً:

"ولأن في الإطلاق هكذا ‌تقليل الجماعة معنى، فإنهم لا يجتمعون إذا علموا أنهم لا تفوتهم....عن أبي يوسف أنه إذا لم تكن الجماعة على الهيئة الأولى لا تكره وإلا تكره، وهو الصحيح، وبالعدول عن المحراب تختلف الهيئة كذا في البزازية انتهى. وفي التتارخانية عن الولوالجية: وبه نأخذ."

  (کتاب الصلاۃ، باب الإمامة، ج: 1، ص: 553، ط:سعيد)

فتاویٰ شامی میں ہے:

" ويكره تكرار الجماعة بأذان وإقامة في مسجد محلة لا في مسجد طريق أو مسجد لا إمام له ولا مؤذن.(قوله: ويكره) أي تحريماً؛ لقول الكافي: لايجوز، والمجمع: لايباح، وشرح الجامع الصغير: إنه بدعة، كما في رسالة السندي، (قوله: بأذان وإقامة إلخ)........ والمراد بمسجد المحلة ما له إمام وجماعة معلومون، كما في الدرر وغيرها. قال في المنبع: والتقييد بالمسجد المختص بالمحلة احتراز من الشارع، وبالأذان الثاني احتراز عما إذا صلى في مسجد المحلة جماعة بغير أذان حيث يباح إجماعاً ".  

( کتاب الصلاة،باب الإمامة،ج:1،ص:،553،552،ط: سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"إذا صلى في المسجد الأول يكون متنفلًا بالأذان في المسجد الثاني و التنفل بالأذان غير مشروع؛ ولأن الأذان للمكتوبة وهو في المسجد الثاني يصلي النافلة، فلا ينبغي أن يدعو الناس إلى المكتوبة وهو لا يساعدهم فيها. اهـ".

(کتاب الصلوۃ، باب الأذان، ج:1، ص:400، ط: سعید)

شرح المجلہ لرستم باز  میں ہے:

"الضرورات تبيح المحظورات أي أن الاشياء الممنوعة تعامل كالأشياء المباحة وقت الضرورت."

(المقدمة، المقالة الثانية  في بيان القواعد الكلية الفقهية، ج:1، ص:24، رقم المادۃ:21، ط:رشیدیة)

کفایت المفتی میں ہے:

"جس مسجد میں کہ پنج وقتہ جماعت اہتمام وانتظام سے ہوتی ہو ،اس میں امام ابوحنیفہ ؒ کے نزدیک جماعت ثانیہ مکروہ ہے؛ کیوں کہ جماعت دراصل پہلی جماعت ہے،اور مسجد میں ایک وقت کی فرض نما زکی ایک ہی جماعت مطلوب ہے،حضورِ انورصلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک اور خلفائے اربعہ وصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کے زمانوں میں مساجد میں صرف ایک ہی مرتبہ جماعت کا معمول تھا، پہلی جماعت کے بعد پھر جماعت کرنے کا طریقہ اوررواج نہیں تھا، دوسری جماعت کی اجازت دینے سے پہلی جماعت میں نمازیوں کی حاضری میں سستی پیدا ہوتی ہے اور جماعت اولیٰ کی تقلیل لازمی ہوتی ہے ؛ اس لیے جماعت ثانیہ کو حضرت امام صاحبؒ نے مکروہ فرمایا اور اجازت نہ دی۔اور جن ائمہ نے اجازت دی انہوں نے بھی اتفاقی طور پر جماعتِ اولیٰ سے رہ جانے والوں کو اس طور سے اجازت دی کہ وہ اذان واقامت کا اعادہ نہ کریں اور پہلی جماعت کی جگہ بھی چھوڑ دیں تو خیر پڑھ لیں ،لیکن روزانہ دوسری جماعت مقرر کرلینا اور اہتمام کےساتھ اس کو ادا کرنا اور اس کے لیے تداعی یعنی لوگوں کو بلانااور ترغیب دینا یہ تو کسی کے نزدیک بھی جائز نہیں ،نہ اس کے لیے کوئی فقہی عبارت دلیل بن سکتی ہے ،یہ تو قطعاً ممنوع اور مکروہ ہے۔"

(کتاب الصلاۃ،ج:3 ، ص:140،ط:دارالاشاعت)

امداد الفتاویٰ میں ہے:

"ایک مسجد میں متعد د تراویح کا حکم

"ســــوال (۴۰۴): قدیم ۴۶۹/۱- ایک جامع مسجد کہ جس کا طول ۲۸ گز اور عرض ۲۱ گز ہے اگر چاہیں کہ قرآن شریف دو جگہ مسجد مذکور میں دو حافظ بیچ تراویح کے پڑھیں اور درمیان میں کوئی آڑر روک ایسی کر دی جائے کہ ایک دوسرے کی آواز سے حرج واقع نہ ہو، آیا جائز ہے یا نہیں؟

الجواب : ایک مسجد میں دو جگہ تراویح پڑھنا بشر طیکہ از راہ نفسانیت نہ ہو اور ایک کا دوسرے سے حرج نہ ہو جائز ہے مگر افضل یہی ہے کہ ایک ہی امام کے ساتھ سب پڑھیں۔

في البخاري عن عبد الرحمن ابن عبد القارى أنه قال: خرجت مع عمر بن الخطاب ليلة في رمضان إلى المسجد فإذا الناس أوزاع متفرقون يصلي الرجل لنفسه ويصلى الرجل فيصلى بصلوته الرهط فقال : إني أرى لو جمعت هولاء على قارئ واحد لكان أمثل ثم عزم فجمعهم على أبي بن كعب (الحديث) جلد أول ص ۲۶۹. اس روایت سے ثابت ہوا کہ حضرت عمر نے تراویح متفرق پڑھنے والوں پر تشفیع نہیں فرمائی، پس معلوم ہوا کہ یہ جائز ہے اور ایک امام کے ساتھ پڑھنے کو افضل فرمایا۔ اس سے معلوم ہوا کہ افضل یہی ہے ، واللہ اعلم۔"

(امداد الفتاوی، کتاب الصلاۃ، باب التراویح، ج:1، ص:370، ط:مکتبہ دارالعلوم کراچی )

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144508100785

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں