بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ٹخنوں سے نیچے پائنچے رکھنے والے/ ڈاڑھی منڈے کے پیچھے نماز کا حکم


سوال

غیر شرعی( ٹخنوں سے نیچے پینٹ اور بغیر داڑھی) مقیم امام کی اقتداء میں شرعی ( جو امامت کا حق رکھتا ہو)مسافر کی نماز کا حکم کیا ہے؟

جواب

  واضح رہے کہ نیک اور دین دار  متبعِ سنت امام کے پیچھے نماز ادا کرنے کی کوشش کرنا ضروری ہے،  شلوار یا پائجامے کا ٹخنوں  سے نیچے رکھنا شرعاً ممنوع ہے خواہ نماز کی حالت میں ہو یا نماز کے علاوہ عام حالت ہو، اور شلوار کو پائجامہ سے نیچے لٹکانے والا سخت گناہ گار ہے، بہرحال اس حال میں بھی جو شخص نماز پڑھے گا تو  کراہت کے ساتھ نماز ہو جائے گی۔

 داڑھی  مونڈنے والے شخص کو اپنے اختیار سے امام بنانا مکروہ تحریمی (ناجائز) ہے،کیوں کہ داڑھی منڈوانا فسق ہے،گناہ کبیرہ ہے، البتہ اگر کوئی متدین  امام میسر نہ ہو اور ایسے شخص کی اقتدا نہ کرنے کی صورت میں جماعت فوت ہونے کا اندیشہ ہو تو ایسے شخص کے پیچھے نماز ادا کرنا انفراداً نماز ادا کرنے سے بہتر ہے، نماز بہر حال ایسے شخص کی اقتدا میں ہوجائے گی۔

فتاوی شامی میں ہے :

"وأما الأخذ منها وهي دون ذلك كما يفعله بعض المغاربة، ومخنثة الرجال فلم يبحه أحد، وأخذ كلها فعل يهود الهند ومجوس الأعاجم فتح

مطلب في الأخذ من اللحية (قوله: وأما الأخذ منها إلخ) بهذا وفق في الفتح بين ما مر وبين ما في الصحيحين عن ابن عمر عنه - صلى الله عليه وسلم - «أحفوا الشوارب واعفوا اللحية» قال: لأنه صح عن ابن عمر راوي هذا الحديث أنه كان يأخذ الفاضل عن القبضة، فإن لم يحمل على النسخ كما هو أصلنا في عمل الراوي على خلاف مرويه مع أنه روي عن غير الراوي وعن النبي - صلى الله عليه وسلم - يحمل الإعفاء على إعفائها عن أن يأخذ غالبها أو كلها كما هو فعل مجوس الأعاجم من حلق لحاهم، ويؤيده ما في مسلم عن أبي هريرة عنه - صلى الله عليه وسلم - «جزوا الشوارب واعفوا اللحى خالفوا المجوس» فهذه الجملة واقعة موقع التعليل، وأما الأخذ منها وهي دون ذلك كما يفعله بعض المغاربة، ومخنثة الرجال فلم يبحه أحد اهـ ملخصا."

(کتاب الصوم ،باب ما یفسد الصوم وما لا یفسد ،ج:2،ص:418،سعید)

وفيه أيضا:

"وفي النهر عن المحيط: صلى خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعة

(قوله نال فضل الجماعة) أفاد أن الصلاة خلفهما أولى من الانفراد، لكن لا ينال كما ينال خلف تقي ورع لحديث «من صلى خلف عالم تقي فكأنما صلى خلف نبي»."

(کتاب الصلاۃ،باب الامامۃ،ج:1،ص:562،سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507100724

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں