بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شلوار ٹخنوں سے نیچے لٹکانا


سوال

اگر ہماری تکبر کی نیت نہ ہو تو کیا ازار ٹخنوں سے نیچے لٹکا سکتے ہیں ؟مثلاً شادی کی تقریب میں شرکت کے لیے؟

جواب

شلوار کاپائنچہ ٹخنوں سے نیچے رکھنا  بقصدِ تکبر حرام ہے، اور بلاقصدِ تکبر مکروہ تحریمی ہے، اگر غیر ارادی طور پر کبھی شلوار کا پائنچہ ٹخنوں سے نیچے لٹک جائے تو  معاف ہے، لیکن جان بوجھ کر ایسا کرنا یا شلوار ہی ایسی بنانا کہ پائنچہ ٹخنوں سے نیچے لٹکتا رہے یہ ہر گز جائز نہیں ہے، اور یہ متکبرین کی علامت ہے، اور جب یہ فعل ہی متکبرین کی علامت ہے  تو پھر یہ کہہ کر ٹخنوں کو چھپانا کہ نیت میں تکبر نہیں تھا ، شرعاً درست نہیں ہے،لہذا صورت مسئولہ میں کسی شادی کی تقریب میں شرکت کے لیے شلوار ٹخنوں سے نیچے کرنا جائز نہیں ہے ۔ 

چنانچہ حدیث شریف میں ہے :

"حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ عَنِ الإِزَارِ، فَقَال: عَلَى الْخَبِيرِ سَقَطْتَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِزْرَةُ الْمُسْلِمِ إِلَى نِصْفِ السَّاقِ، وَلَا حَرَجَ - أَوْ لَا جُنَاحَ - فِيمَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْكَعْبَيْنِ، مَا كَانَ أَسْفَلَ مِنَ الْكَعْبَيْنِ فَهُوَ فِي النَّارِ، مَنْ جَرَّ إِزَارَهُ بَطَرًا لَمْ يَنْظُرِ اللَّهُ إِلَيْهِ".

(سنن أبي داؤد: كتاب اللباس، ج:4،ص:59،، ط: المكتبة العصرية صيدا، بيروت)

ترجمہ:"  عبد الرحمن کہتے ہیں کہ میں نے ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ازار کی بابت سوال کیا، تو انہوں نے کہا کہ تم نے ایک باخبر سے دریافت کیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ مومن کی تہہ بند نصف پنڈلی تک رکھنا بہتر ہے، اور نصف پنڈلی اور ٹخنوں کے درمیان ہو تو کوئی حرج نہیں، یا فرمایا کہ کوئی گناہ نہیں، اور جو ٹخنوں سے نیچے ہو تو وہ آگ میں ہے، (یعنی اس کا نتیجہ جہنم ہے)، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس آدمی کی طرف نگاہ اٹھا کر بھی نہ دیکھے گا، جو ازراہِ فخر و تکبر اپنی ازار گھسیٹ کے چلے گا۔"

نيز حديث شريف ميں ہے :

"حدثنا آدم: حدثنا شعبة: حدثنا سعيد بن أبي سعيد المقبري، عن أبي هريرة رضي الله عنه،عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (ما أسفل من الكعبين من الإزار ففي النار)."

( صحيح البخاري: كتاب اللباس، باب ما أسفل من الكعبين فهو في النار، (5 /2182) ط: دار ابن كثير دمشق )

فیض الباری میں ہے:

"قوله: (من جر ثوبه خيلاء) وجر الثوب ممنوع عندنا مطلقا، فهو إذن من أحكام اللباس، وقصر الشافعية النهي على قيد المخيلة ، فإن كان الجر بدون التكبر، فهو جائز، وإذن لا يكون الحديث من أحكام اللباس والأقرب ما ذهب إليه الحنفية، لأن الخيلاء ممنوع في نفسه، ولا اختصاص له بالجر، وأما قوله صلى الله عليه وسلم لأبي بكر: «إنك لست ممن يجر إزاره خيلاء»، ففيه تعليل بأمر مناسب، وإن لم يكن مناطا فعلة الإباحة فيه عدم الاستمساك إلا بالتعهد، إلا أنه زاد عليه بأمر يفيد الإباحة، ويؤكدها. ولعل المصنف أيضا يوافقنا، فإنه أخرج الحديث في اللباس، وسؤال أبي بكر أيضا يؤيد ما قلنا، فإنه يدل على أنه حمل النهي على العموم، ولو كان عنده قيد الخيلاء مناطا للنهي، لما كان لسؤاله معنى. والتعليل بأمر مناسب طريق معهود. ولنا أن نقول أيضا: إن جر الإزار خيلاء ممنوع لمن يتمسك إزاره، فليس المحط الخيلاء فقط."

(كتاب اللباس، باب من جر ثوبه من الخيلاء،72/6،ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإسبال الإزار والقميص بدعة ينبغي أن يكون الإزار فوق الكعبين إلى نصف الساق."

(كتاب الكراهية ،الباب التاسع في اللبس ما يكره من ذلك وما لا يكره،333/5،ط:رشيدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503101647

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں