میں کراچی کے ایک نجی اسکول میں شعبہ حفظ کی کلاس میں پڑھاتا ہوں ، اس کے قواعد حسب ذیل ہیں:
1-تقرری کے بعد پانچ مہینے تک ہر ماہ پانچ ہزار روپے بطورِ ڈپازٹ تنخواہ جمع ہوگی۔
2-مقررہ وقت سے پانچ منٹ اضافی دیتے تھے، اس کے بعد ایک منٹ بھی تاخیر پر آنے سے مہینے میں تین یوم لیٹ ہونے پر ایک یوم کی اجرت کاٹ لی جائے گی۔
3-جو استاد مکمل سال بغیر ناغے اور اچھی کارکردگی سے رہے گا اس کو بونس ملے گا۔
4-اسی طرح اگر کوئی استاد اسکول چھوڑ دے ا ورسال مکمل نہ ہوا ہو تواس کو ڈیپازٹ نہیں ملے گا ،چاہے جتنے سال بعد بھی چھوڑے۔
5-اسی طرح استاد چھوڑنے سے ایک ماہ پہلے اور اسکول استاد کو نکالنے سے ایک ماہ پہلے اطلاع دے گا۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ بیماری کی وجہ سے میں نے 15 دن پہلے استعفی جمع کرایا کہ میں یکم مئی کو اسکول چھوڑ دوں گا ،تو انہوں نے کہا کہ 15 دن بعد کی کیا ضرورت ہم ابھی آپ کو فارغ کر دیتے ہیں ۔سوال یہ ہے کہ کسی بھی طرح اسکول کو یہ اختیار ہے کہ وہ دو سال پہلے جمع شدہ رقم مجھے نہ دے ،جو بطورِ ڈیپازٹ ان کے پاس جمع ہے، اگرچہ میرا سال پورا نہیں ہوا، صرف ایک مہینہ باقی تھا، اسی طرح اس مہینے کے 16 اپریل کے بعد کہ جو دن باقی ہیں اس کی تنخواہ کا میں حق دار ہوں یا نہیں؟ کیوں کہ میں نے پورا مہینہ پڑھانا تھا اور استعفی میں تصریح بھی کی ہے ، آیا مہینے میں مذکورہ صورت میں تاخیر سے آنے پر مکمل اجرت کی کٹوتی شرعا درست ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو جتنی اجرت کاٹی ہے اس کا میں مطالبہ کر سکتا ہوں یا نہیں؟
واضح رہے کہ کسی بھی ادارے کے ملازمین کی حیثیت شرعی طور پر اجیر خاص کی ہوتی ہے؛ کیوں کہ وہ وقت کے پابند ہوتے ہیں، اور اجیر خاص ملازمت کے مقررہ وقت پر حاضر رہنے سے اجرت (تنخواہ) کا مستحق ہوتا ہے، اگر وہ ملازمت کے اوقات میں حاضر نہیں رہا یا تاخیر سے آیا تو اس غیر حاضری اور تاخیر کے بقدر تنخواہ کا وہ مستحق نہیں ہوتا، اس معاملہ کا اصل تقاضا تو یہ ہے کہ جب ملازم کام نہ کرے تو اس کا معاوضہ بھی نہ لے، یا جتنی تاخیر سے آئے اس تاخیر کے بقدر تنخواہ وصول نہ کرے ، لیکن شریعت نے طرفین کو اختیار دیا ہے کہ تنخواہ کے بارے میں باہمی رضامندی سے چھٹی یا تاخیر کی صورت میں جو جائز ضابطہ بناکر آپس میں طے کرلیں اس کی شرعاً بھی اجازت ہوگی۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکور ہ سوالات کے جوابات مندرجہ ذیل ہیں:
1- ادارے کی طرف سے اساتذہ کی تنخواہوں سے مقررہ مقدار میں رقم سیکیورٹی کے طور پر منہا کرناجائز ہے جوکہ درحقیقت ادارے کے ذمے اساتذہ کا دین ہوتا ہے، اور معاہدہ ملازمت کے اختتام پر یہ رقم دین ہونے کی وجہ سے اساتذہ کوواپس کرنالازم ہے۔
2-اس کا حکم یہ ہے کہ یہ ضابطہ شرعاً درست نہیں ہے، تین دن تاخیر سے آنے پر ایک پورے دن کی تنخواہ کاٹنا جائز نہیں ہے؛ اس لیے ملازم نے جتنا وقت دیا ہے اتنے وقت کی تو وہ تنخواہ کا مستحق ہے ،البتہ تنخواہ میں کٹوتی کے جواز کی صورت یہ ہے کہ ملازم کی ماہانہ تنخواہ کو اس کی ملازمت کے مکمل وقت (مثلا صبح 8 سےشام 5 بجے تک وغیرہ)میں تقسیم کردیا جائے پھر جس دن کوئی ملازم ملازمت کے وقت تاخیر سے آئے تو اس کی تنخواہ میں سے صرف اس تاخیر کے بقدر کٹوتی کی جاسکتی ہے۔
3 -یہ کمپنی کی طرف سے تبرع ہے ،اور شرعا بالکل جائز ہے۔
4 -ادارے نے جو رقم بطورِ ڈیپازٹ کے جمع کی ہے یہ اساتذہ کا ادارے کے ذمہ دین ہے،اور دین کا لوٹانا شرعا واجب ہے۔
5 -یہ شرط انتظامی نوعیت کی ہے ،اور طلبہ کے تعلیمی حرج سے بچنے کے لیے ایسی شرائط عائد کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں 15 دن پہلے استعفی جمع کرانے پرا ٓپ 15 دن کی تنخواہ لینے کے حق دار ہوں گے ۔اگرچہ آپ نے مہینہ مکمل کرنے کی صراحت کی ہے،جیسا کہ اوپر تمہید میں گذرا،نیز ادارہ آ پ کے جمع شدہ دیپازٹ کو واپس کرنے کا پابند ہے ،واپس نہ کرنےکی صورت میں ادارہ خیانت کا مرتکب ہو گا۔
الدر المختار میں ہے:
"(والثاني) وهو الأجير (الخاص) ويسمى أجير وحد (وهو من يعمل لواحد عملا مؤقتا بالتخصيص ويستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة وإن لم يعمل كمن استؤجر شهرا للخدمة أو) شهرا (لرعي الغنم) المسمى بأجر مسمى بخلاف ما لو آجر المدة بأن استأجره للرعي شهرا حيث يكون مشتركا إلا إذا شرط أن لا يخدم غيره ولا يرعى لغيره فيكون خاصا."
(کتاب الإجارۃ، باب ضمان الأجیر، ج:6، ص:72، ط:سعید)
فتاوی شامی میں ہے:
"وشرطها كون الأجرة والمنفعة معلومتين."
(کتاب الإجارۃ، ج:6، ص:5، ط:سعید)
وفیہ ایضاً:
"ولا جبر على المتبرع."
(کتاب الوصایا،باب الوصی، ج:6، ص:713)
درر الحکام میں ہے:
"كل يتصرف في ملكه المستقل كيفما شاء أي أنه يتصرف كما يريد باختياره أي لا يجوز منعه من التصرف من قبل أي أحد هذا إذا لم يكن في ذلك ضرر فاحش للغير[انظر المادة:1197]، كما أنه لا يجبر من أحد على التصرف أي لا يؤمر أحد من آخر بأن يقال له: أعمر ملكك وأصلحه ولا تخربه ما لم تكن ضرورة للإجبار على التصرف كما ذكر في المواد (1317 و 1318و 1319 و 1320)."
(الكتاب العاشر الشركات، الباب الثالث، الفصل الأول، ج:3، ص:201، ط:دار الجيل)
مشکاۃ المصابیح میں ہے:
"وعن عمرو بن عوف المزني عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «الصلح جائز بين المسلمين إلا صلحاً حرم حلالاً أو أحل حراماً، والمسلمون على شروطهم إلا شرطاً حرم حلالاً أو أحل حراماً» . رواه الترمذي وابن ماجه وأبو داود وانتهت روايته عند قوله: «شروطهم."
( باب الإفلاس والإنظار، الفصل الثاني، ص:253، ط: قدیمی)
فتاوی شامی میں ہے:
"وليس للخاص أن يعمل لغيره، ولو عمل نقص من أجرته بقدر ما عمل، فتاوى النوازل.
(قوله: وليس للخاص أن يعمل لغيره) بل ولا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي وإذا استأجر رجلاً يوماً يعمل كذا، فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة، وفي فتاوى سمرقند: وقد قال بعض مشايخنا: له أن يؤدي السنة أيضاً. واتفقوا أنه لا يؤدي نفلاً، وعليه الفتوى ... (قوله: ولو عمل نقص من أجرته إلخ) قال في التتارخانية: نجار استؤجر إلى الليل فعمل لآخر دواة بدرهم وهو يعلم فهو آثم، وإن لم يعلم فلا شيء عليه، وينقص من أجر النجار بقدر ما عمل في الدواة."
( کتاب الإجارۃ، باب ضمان الأجیر، ص:70، ج:6، ط: سعید)
شرح المجلۃ میں ہے:
"لایجوز لأحد أن یاخذ مال أحد بلا سبب شرعي".
(مادۃ: 97، ص:27،ج:1 ط؛ رشیدیه)
البحر الرائق میں ہے:
"وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال".
( كتاب ا لحدود، باب حد القذف ،فصل فی التعزیر، ص:44،ج:5،ط:دار الکتاب الإسلامي)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144610101237
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن