بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

13 ذو القعدة 1446ھ 11 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

تاخیر سے فیس ادا کرنے میں نئے چالان کے اجراء کی وجہ سے سو روپے اضافی لینا


سوال

میرے بچے ایک ادارے میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں، اس سے قبل ادارے میں فیس جمع کرانے کا طریقہ یہ تھا کہ والدین یا کوئی بھی شخص اس ادارے کی برانچ میں جاکر فیس جمع کرادیا کرتا تھا، تاخیر کی صورت میں بھی وہی رقم واجب الادا ہوتی تھی، کچھ عرصہ قبل اس ادارے میں موجودہ حالات کے پیش نظر فیس آن لائن سسٹم پر منتقل کر دی گئی اور والدین سے کہا گیا کہ اپنے بچے یا بچی کی فیس آن لائن جمع کرائیں۔

اس صورت میں اگر مقررہ تاریخ،  جو کہ ہر ماہ کی 25 تاریخ ہے، تک والدین فیس ادا کر دیتے ہیں تو ان کو ادارہ کی مقررہ فیس ادا کرنی پڑتی ہے لیکن مقررہ تاریخ گزرنے کے بعد 100 روپے اضافی لیے جاتے ہیں جس کے لیے ادارہ سے رابطہ کر کے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ مقررہ تاریخ کو چالان منسوخ ہو جاتا ہے اور دو بارہ نیا چالان بنتا ہے ، یہ نیا چالان بنانے کی مد میں لی جاتی ہے۔

واضح رہے کہ نیا چالان کسی کاغذ کی شکل میں نہیں دیا جاتا بلکہ سسٹم کے ذریعہ آن لائن ہی چالان بھیجا جاتا ہے اور آن لائن فیس جمع کراتے وقت یہ چار جز فیس میں شامل ہوتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ ادارہ مقررہ تاریخ گزرنے کے بعد جو 100 روپے چارج کر رہا ہے کیا از روئے شریعت یہ جائز ہے ؟ جب کہ ادارہ اس پر دلیل یہ دیتا ہے کہ چالان بنانے کے لیے کام کیا جاتا ہے جس کے چار جز وصول کیے جاتے ہیں۔

جواب

واضح رہے کہ تاخیر سے فیس ادا کرنے پر اضافی رقم وصول کرنا تعزیر بالمال کے حکم میں ہے، جو کہ ناجائز ہے، لہذا صرف اس بنیاد پر اضافی فیس لینا کہ مقررہ وقت میں ادائیگی نہیں کی گئی، تو یہ اضافی رقم جائز نہیں ہوگی۔ صورتِ مسئولہ میں ادارے والوں کا مقررہ مدت میں فیس جمع نہ کرانے پرسابقہ چالان منسوخ کرکے نئے چالان کے اجراء کے لیے اضافی رقم لینا بھی جائز نہیں ہے، سابقہ چالان کی منسوخی بغیر کسی سببِ شرعی کے ہونے کی وجہ سے تعزیر بالمال کے حکم میں ہے، جو کہ ناجائز ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"مطلب في التعزير بأخذ المال (قوله لا بأخذ مال في المذهب) قال في الفتح: وعن أبي يوسف يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال. وعندهما وباقي الأئمة لا يجوز. اهـ. ومثله في المعراج، وظاهره أن ذلك رواية ضعيفة عن أبي يوسف. قال في الشرنبلالية: ولا يفتى بهذا لما فيه من تسليط الظلمة على أخذ مال الناس فيأكلونه اهـ ومثله في شرح الوهبانية عن ابن وهبان (قوله وفيه إلخ) أي في البحر، حيث قال: وأفاد في البزازية أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنه مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه، لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ ‌لا ‌يجوز ‌لأحد ‌من ‌المسلمين ‌أخذ ‌مال ‌أحد ‌بغير ‌سبب ‌شرعي.

وفي المجتبى لم يذكر كيفية الأخذ وأرى أن يأخذها فيمسكها، فإن أيس من توبته يصرفها إلى ما يرى. وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ."

(كتاب الحدود، باب التعزير، ج:4، ص:62، ط:دار الفکر)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

‌"لا ‌يجوز ‌لأحد ‌من ‌المسلمين ‌أخذ ‌مال ‌أحد ‌بغير ‌سبب ‌شرعي."

(کتاب الحدود، ج:2، ص:167، ط: دار الفکر)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144608100625

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں