بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ٹیک لگا کر کھانا کھانے کاحکم


سوال

1) ٹیک لگا کر کوئی بھی چیز کھانےیا پینے کا کیا حکم ہے ؟

2) کیا  ایسے بیٹھ کے کھانے سے گناہ ہو گا؟

جواب

1۔صورتِ مسئولہ میں بغیر عذر کے ٹيک لگا كر اور سہارا لے کر کھانا  پیناخلافِ سنت اور ناپسندیدہ ہے،کھانے پر بیٹھنے کی بہتر ہیئت وہ ہے، جس سے زیادہ کھانے کی نوبت نہ آتی ہو اور جلدی سیری محسوس ہوتی ہو،اسی وجہ سے دو طریقوں کو بہتر قرار دیا گیا ہے:‏
‏(الف)‏ دایاں گھٹنا کھڑا کرکے بایاں پاؤں بچھاکر بیٹھنا۔
‏(ب)‏دو زانو یعنی التحیات کی شکل میں بیٹھنا،البتہ چار زانو بیٹھ کر (یعنی چوکڑی مارکر) کھانا بھی جائز ہے، گناہ نہیں ہے، لیکن یہ سنت طریقہ نہیں ہے اور تواضع کے بھی زیادہ ‏قریب نہیں ہے۔

2۔البتہ اگر کبھی ٹیک لگا کر کھا لیا جائے تو اس میں گناہ تو نہیں ،لیکن اس کو عادت بنا لینا درست نہیں۔
مشکاۃ شریف میں  ہے :

"وعن عبد الله بن عمرو قال: ما رئي رسول الله صلى الله عليه وسلم يأكل ‌متكئا قط ولا يطأ عقبه رجلان. رواه أبو داود."

(كتاب الاطعمة،الفصل الثاني ،ج :2 ،ص :1217،ط :دارالكتاب الإسلامي)

فتح الباری لابن حجر میں ہے :

واختلف في صفة الاتكاء فقيل أن يتمكن في الجلوس للأكل على أي صفة ‏كان وقيل أن يميل على أحد شقيه وقيل أن يعتمد على يده اليسرى من ‏الأرض ...وأصله مأخوذ من ملوك العجم قال فإن كان بالمرء مانع لا يتمكن ‏معه من الأكل إلا متكئا لم يكن في ذلك كراهة."

(كتاب الإطعمة،ج  :9،ص :542، ط: دار المعرفة)

وايضاّ :

"فالمستحب في صفة الجلوس للآكل أن يكون ‌جاثيا على ركبتيه وظهور قدميه أو ينصب الرجل اليمنى ويجلس على اليسرى واستثنى الغزالي من كراهة الأكل مضطجعا أكل البقل واختلف في علة الكراهة وأقوى ما ورد في ذلك ما أخرجه بن أبي شيبة من طريق إبراهيم النخعي قال كانوا يكرهون أن يأكلوا اتكاءة مخافة أن تعظم بطونهم وإلى ذلك يشير بقية ما ورد فيه من الأخبار فهو المعتمد ووجه الكراهة فيه ظاهر وكذلك ما أشار إليه بن الأثير من جهة الطب والله أعلم."

(كتاب الإطعمة،باب الشواء،ج :9،ص :542،ط:دارالمعرفة)

فتاوی عالمگیری میں ہے :

"لا بأس بالأكل ‌متكئا إذا لم يكن بالتكبر، وفي الظهيرية هو المختار، كذا في جواهر الأخلاطي. ويكره الأكل والشرب ‌متكئا أو واضعا شماله على الأرض أو مستندا كذا في الفتاوى العتابية."

(كتاب الكراهية،البا الحاد ي عشر في افعال الكراهيه،وما يتصل به،ج :5 ،ص337،ط:دارالفكر)

فتاوی شامی میں ہے :

(ولا بأس بالأكل ‌متكئا أو مكشوف الرأس في المختار."

(كتاب الحظر والإباحة،ج :6،ص :340،ط :سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144409100139

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں