بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تکبیرات انتقالات کا حکم


سوال

تکبیر اولی کے علاوہ دوسری تکبیرات پڑھنا واجب ہیں یا مسنون؟

جواب

صورت مسئولہ میں تکبیراتِ انتقال : یعنی ایک رُکن سے دوسرے رُکن کی طرف منتقل ہونے کی تکبیرات، جس طرح امام کے لیے بہ آوازِ بلند کہنا سنت ہے، اسی طرح مقتدیوں کے لیے زبان سے آہستہ کہنا سنت ہے، لہذا مقتدیوں کو بھی امام کی تکبیر  کے بعد تکبیراتِ انتقال آہستہ کہہ کر دوسرے رکن میں منتقل ہوناچاہیے، اس لیے جان بوجھ کر ان تکبیرات کا ترک کرنادرست نہیں۔ البتہ اگر کوئی مقتدی کسی وجہ سے نہ کہہ سکا، تو اس کی نماز صحیح ہوجائے گی۔ 

نیز تنہا نماز پڑھنے والے کا بھی یہی حکم ہے۔

البتہ وتر کی نماز میں قنوت پڑھنے سے پہلے تکبیر واجب ہے، اسی طرح عیدین کی نماز میں تین زائد تکبیرات واجب ہیں۔

معارف السنن میں ہے:

"قال الراقم: تکبیرات الانتقالات سنة عند الجمہور، قال ابن المنذر: وبه قال أبو بکر الصدیق، وعمر، وجابر، وقیس بن عبادۃ، والشعبي، والأوزاعي، وسعید بن عبد العزیز، ومالک، والشافعي، وأبو حنیفة، ونقله ابن بطال أیضًا عن عثمان، وعلي، وابن مسعود، وابن عمر، وأبي هریرۃ، وابن الزبیر، ومکحول، والنخعي، وأبي ثور".

(باب ما جاء في التکبیر عند الرکوع و السجود، ج: ۲، صفحہ: ۴۴۶، ط:ایچ، ایم، سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وجهر الإمام بالتكبير) بقدر حاجته للإعلام بالدخول والانتقال، وكذا بالتسميع والسلام، وأما المؤتم والمنفرد فيسمع نفسه".(قوله بقدر حاجته للإعلام إلخ) وإن زاد كره ط.قلت: هذا إن لم يفحش كما سيأتي بيانه إن شاء الله تعالى في آخر باب الإمامة عند قوله وقائم بقاعد، وأشار بقوله والانتقال إلى أن المراد بالتكبير هنا ما يشمل تكبير الإحرام وغيره، وبه صرح في الضياء.

ثم اعلم أن الإمام إذا كبر للافتتاح فلا بد لصحة صلاته من قصده بالتكبير الإحرام، وإلا فلا صلاة له إذا قصد الإعلام فقط، فإن جمع بين الأمرين بأن قصد الإحرام والإعلان للإعلام فذلك هو المطلوب منه شرعا".

(كتاب الصلاة،باب صفة الصلاة، ج: ۱، صفحہ: ۴۷۵، ط: ایچ، ایم، سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولا يجب السجود إلا بترك واجب أو تأخيره أو تأخير ركن أو تقديمه أو تكراره أو تغيير واجب بأن يجهر فيما يخافت وفي الحقيقة وجوبه بشيء واحد وهو ترك الواجب ، كذا في الكافي.ولا يجب بترك التعوذ والبسملة في الأولى والثناء وتكبيرات الانتقالات إلا في تكبيرة ركوع الركعة الثانية من صلاة العيد". 

(الباب الثاني عشر في سجود السهو، ج: ۱، صفحہ: ۱۰۲، ط: دارالفکر- بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504101620

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں