میں نے تکبیر اولی کی پابندی شروع کی ہے، لیکن کل ظہر کی نماز میں جب مسجد پہنچا تو جماعت شروع ہوچکی تھی، میں جماعت میں شریک ہو گیا، رکعت مکمل ہونے کے بعد معلوم ہوا کہ یہ دوسری رکعت ہے ، تو میں نماز قصدا توڑ کر باہر نکل گیا اور دوسری مسجد میں جا کر تکبیر اولی کے ساتھ نماز ادا کی۔
سوال یہ ہے کہ میرا تکبیر اولی کی پابندی کرنے کے لیے یہ عمل صحیح تھا یا نہیں؟ میری تکبیر اولی کی ترتیب باقی ہے یاختم ہو گئی ؟
واضح رہےکہ نماز شروع کرنے کے بعد کسی شرعی عذر کے بغیر قصدا نماز توڑنا درست نہیں ہے ،اور تکبیر اولی کے حصول لیے نماز توڑنا شرعاً عذر نہیں ہے، لہذا صورت مسئو لہ میں سائل کا نماز شروع کرنے کے بعد قصداتوڑنا درست نہیں تھا،اس پر توبہ و استغفار کرے، آئندہ ایسا نہ کرے، باقی سائل نے جب نماز توڑ کر دوسری جگہ اس نے نماز تکبیر اولی کے ساتھ ادا کر لی، توسائل کی تکبیر اولی کی پابندی برقرار ہے۔
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ميں هے:
"وعن أنس رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:من صلى لله أربعين يوما في جماعة يدرك التكبيرة الأولى، كتب له براءتان: براءة من النار، وبراءة من النفاق. رواه الترمذي.
(وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من صلى لله) أي: خالصا (أربعين يوما) أي: وليلة (في جماعة) : متعلق بصلى (يدرك) : حال (التكبيرة الأولى) : ظاهرها التكبيرة التحريمية مع الإمام، فاحتمل أن تشمل التكبيرة التحريمية للمقتدي عند لحوق الركوع، فيكون المراد إدراك الصلاة بكمالها مع الجماعة، وهو يتم بإدراك الركعة الأولى."
(كتاب الصلاة، باب ما على المأموم من المتابعة، الفصل الثاني، 880/3، ط: دارالفكر)
فتاوی شامی میں ہے:
"أفسده لزمه القضاء (ولو عند غروب وطلوع واستواء) على الظاهر (فإن أفسده حرم) - {ولا تبطلوا أعمالكم} [محمد: 33]- (إلا بعذرووجب قضاؤه)."
(كتاب الصلاة،باب الوتر والنوافل،30/2، ط: سعيد)
درر الحکام شرح غرر الاَحکام میں ہے:
"اعلم أن الأصل أن نقض العبادة قصدا بلا عذر حرام لقوله تعالى {ولا تبطلوا أعمالكم} [محمد: 33]."
(كتاب الصلاة، باب إدراك الفضيلة،121/1، ط:دار إحياء الكتب العربية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144507102196
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن