بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تکبیر تحریمہ میں آواز بلند کرنے ، سامع یا مقتدی کا بطورِ لقمہ آیت سجدہ تلاوت کرنے ، ناپاک کپڑوں میں لاعلمی سے نماز پڑھنے ، نجاست سے پاکی حاصل کرنے اور امامت سے متعلق متفرق احکام


سوال

مندرجہ ذیل  سوالات کے بارے میں  براہ کرم تفصیلی جواب عنایت فرمادیں:

1:نماز میں تکبیرِ تحریمہ کا اتنی آواز میں کہنا فرض ہے کہ کان تک آواز پہنچ جائے ،اب گزشتہ نمازیں جن میں یہ لحاظ لا علمی کی وجہ سے نہ رکھا جا سکا، ان کا کیا حکم ہے؟

2: دورانِ نماز کبھی یہ خیال آجائے کہ پتہ نہیں تکبیرِتحریمہ اونچی آواز میں کہی تھی یا نہیں ؟اور ذہن کوئی فیصلہ کرنے سے قاصرہو، تو ایسی صورت میں کیا کرنا چاہیے؟

3:بینک میں کمپیوٹر کا کام کرنے کا موقع ملے تو ایسی نوکری کرناجائز ہے یا نہیں؟

4:رمضان میں سامع نے آیتِ سجدہ بطورِ لقمہ تلاوت کر دی ،کیا امام پر سجدہ کرنا لازم ہوگا؟

5:کون سے واجبات ایسے ہیں جن کے سہواً چھوٹ جانے پر سجدہ سہو نہ کیا جائے تو بھی نماز ہو جاتی ہے؟

6:جہالت و لاعلمی کی وجہ سے کئی سال ناپاک کپڑوں میں نماز پڑھنے والوں کا ایمان باقی رہتا ہے یا نہیں؟ کیوں کہ فرض علوم سیکھنا فرض ہے ۔

7:دروازے کی کنڈی یا الماری اور فریج وغیرہ پر ناپاکی لگ جائے تو پاک کرنا لازم ہےیا خشک ہو جانے کے بعد وہ ناپاکی ختم ہو جاتی ہے؟ اور دوبارہ گیلا ہاتھ لگنے سے ہاتھ ناپاک ہوگا یانہیں ؟

8:کھانے پینے والی چیز میں کوئی نجاست گر جائے تو کیسے پاک کریں ؟

9:میں بیرون ملک ہوتا ہوں، یہاں کی مسجد میں چند مختلف آئمہ آکر جماعت کرواتے ہیں، ان میں سے کچھ کو دیکھا گیا کہ کھڑے ہو کرحاجت روائی (پیشاب)کرتے ہیں، اور طہارت کا خاص خیال نہیں رکھتے، اس صورت میں ہمارا ان کے پیچھے نماز پڑھنے کو دل نہیں چاہتا ہے،ایسی صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟نیزہمارے یہاں فجر کی نماز میں دوسری رکعت میں رکوع کے بعد شوافع  ہاتھ اٹھا کردعا مانگتے ہیں، اس دعا کے وقت جماعت میں شامل ہو جانا چاہیے یا دعا مکمل ہونے کے بعد شامل ہونا چاہیے ؟ اگر شامل ہو جائیں تو کیا پڑھنا چاہیے؟

جواب

1-2:واضح رہے کہ نماز میں نفسِ تکبیر تحریمہ کہنا تو فرض ہے، البتہ امام کے لیے مقتدیوں تک آواز پہنچانےکی حدتک اور منفرد کو اپنے کانوں تک آواز پہنچانے کی حدتک تکبیر تحریمہ کی آواز کو بلند کرنا سنت ہے، فرض نہیں ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل کی وہ گزشتہ نمازیں جن میں بلند آوازسے تکبیر تحریمہ نہیں کی ہے،وہ دوبارہ لوٹانے کی ضرورت نہیں ہے، البتہ آئندہ نمازوں میں اس سنت کا اہتمام کرنا چاہیے،نیز  دورانِ نماز تکبیر میں آواز کی بلند ہونے نہ ہونے کے حوالہ سے وسوسہ آئےتو اس طرف دھیان نہیں دینا چاہیے، بلکہ نماز کو پرسکون انداز میں مکمل کرلینا چاہیے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(سننها) رفع اليدين للتحريمة، ونشر أصابعه، وجهر الإمام بالتكبير، والثناء، والتعوذ، والتسمية، والتأمين سرا، ووضع يمينه على يساره تحت سرته، وتكبير الركوع وتسبيحه ثلاثا، وأخذ ركبتيه بيديه، وتفريج أصابعه، وتكبير السجود والرفع..."

(كتاب الصلاة،الفصل الثالث في سنن الصلاة وآدابها وكيفيتها، ج:1،ص:72، ط:دارالفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وسننها) ترك السنة لا يوجب فسادا ولا سهوا بل إساءة لو عامدا غير مستخف وقالوا الإساءة أدون من الكراهة، ثم هي على ما ذكره ثلاثة وعشرون (رفع اليدين للتحريمة)...(وجهر الإمام بالتكبير) بقدر حاجته للإعلام بالدخول والانتقال. وكذا بالتسميع والسلام. وأما المؤتم والمنفرد فيسمع نفسه."

(كتاب الصلاة، ج:1، ص:473،ط:سعيد)

3:بینک میں کمپیوٹر کے کام کاج کے حوالہ سے نوکری کرنا جائز نہیں ہے، کیوں کہ مروجہ بینکوں کا طریقہ تمویل سارا کا سارا یا اکثر  سود پر مشتمل ہے؛ لہذا کسی بھی بینک یا اس کے کسی ذیلی ادارے میں ملازمت کرکے اس سودی نظام کا بلاواسطہ یا بالواسطہ حصہ بننا درست نہیں۔

حدیث مبارک  میں ہے:

’’عن جابر رضي الله عنه، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه» ، وقال: «هم سواء».‘‘

(مشکاة المصابیح، باب الربوا، ص:243، ط:قدیمی)

ترجمہ:" حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سود لینے والے اور دینے والے اور لکھنے والے اور گواہی دینے والے پر لعنت کی ہے اور فرمایا: یہ سب لوگ اس میں برابر ہیں، یعنی اصل گناہ میں سب برابر ہیں اگرچہ مقدار اور کام میں مختلف ہیں۔"

4:اگر  دورانِ نماز  کوئی مقتدی یا سامع آیت سجدہ تلاوت کرےتو اس کو سننے سے امام و مقتدی کسی پر  بھی نماز کے دوران یا نماز سے فراغت کے بعد سجدہ تلاوت کرنا لازم نہیں ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإن تلا المأموم لم يلزم الإمام ولا المؤتم السجود لا في الصلاة ولا بعد الفراغ منها، كذا في السراج الوهاج."

(كتاب الصلاة،الباب الثالث عشر، ج:1،ص:133، ط:دارالفكر)

5:نماز میں دورانِ تلاوت سورتوں کی ترتیب کا لحاظ رکھنا واجب ہے، البتہ اگر کوئی شخص سورتوں کی ترتیب کے برعکس تلاوت کرے اور سجدہ سہو کیے بغیر نماز مکمل کردے تو نماز اد اہوجائے گی اور دوبارہ لوٹانا لازم نہیں ہے۔

البحر الرائق میں ہے:

"سببه ترك واجب من واجبات الصلاة الأصلية سهوا وهو المراد بقوله بترك واجب لا كل واجب بدليل ما سنذكره من أنه لو ‌ترك ‌ترتيب ‌السور لا يلزمه شيء مع كونه واجبا وهو أجمع ما قيل فيه وصححه في الهداية وأكثر الكتب."

(كتاب الصلاة،باب سجدة السهو، ج:2، ص:101، ط:دارالكتاب الإسلامي)

الموسوعۃ الفقہیۃ میں ہے:

"نص الحنفية على أن المصلي لو ‌ترك ‌ترتيب ‌السور لا يلزمه شيء مع كونه واجبا؛ لأنه ليس واجبا أصليا من واجبات الصلاة."

(بحث القرأة،ج:33، ص:50، ط:دارالصفوة)

6:اگر کوئی شخص جہالت و لاعلمی کی وجہ سے ایسےنجس کپڑوں میں سے کئی سال تک نماز پڑھتا رہے، جس پر نجاست کی ممنوعہ مقدار( نجاستِ غلیظہ ایک درہم یاہتھیلی کے گھیراؤ سے زائد اور نجاستِ خفیفہ کپڑے کے ایک چوتھائی حصہ)تک لگی رہتی ہو، تو اس پر ان تمام نمازدوں کا وقت کے اندر اعادہ کرنا اور وقت گزرنے کے بعد قضا کرنا لازم ہے،لیکن لاعلمی میں ناپاک کپڑوں کے ساتھ نماز پڑھنے سے وہ دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوگا،البتہ اس پر لازم ہے کہ اپنے اس فعل پر خوب توبہ استغفار کرے۔

مجمع الانہر میں ہے:

"وفي فصول العمادي ولو ابتلي إنسان بذلك ضرورة بأن كان ‌يصلي ‌مع ‌قوم ‌فأحدث واستحى أن يظهر ذلك وكتم فصلى هكذا أو كان هرب من العدو فقام يصلي وهو غير طاهر قال بعض مشايخنا لا يكفر لأنه غير مستهزئ."

(باب المرتد، ألفاظ الكفر أنواع، ج:1، ص:694، ط:داراحياء الكتب العربي)

اللباب فی شرح الکتاب میں ہے:

"(ومن أصابه من النجاسة المغلظة كالدم والبول) من غير مأكول اللحم ولو من صغير لم يطعم (والغائط والخمر) وخرء الطير لا يزرق في الهواء كذجاج وبط وإوز (مقدار الدرهم فما دونه جازت الصلاة معه: لأن القليل لا يمكن التحرز عنه؛ فيجعل عفواً، وقدرناه بقدر الدرهم أخذاً عن موضع الاستنجاء (فإن زاد) عن الدرهم (لم تجز) الصلاة، ثم يروى اعتبار الدرهم من حيث المساحة، وهو قدر عرض الكف في الصحيح، ويروى من حيث الوزن، وهو الدرهم الكبير المثقال، وقيل في التوفيق بينهما: إن الأولى في الرقيق، والثانية في الكثيف، وفي الينابيع: وهذا القول أصح، ........

(وإن أصابته نجاسة مخففة كبول ما يؤكل لحمه) ومنه الفرس، ... (جازت الصلاة معه ما لم يبلغ ربع) جميع (الثوب) ... وقيل: ربع الموضع الذي أصابه كالذيل والكم والدخريص، إن كان المصاب ثوبا. وربع العضو المصاب كاليد والرجل، إن كان بدناً وصححه في التحفة والمحيط والمجتبى والسراج، وفي الحقائق: وعليه الفتوى."

(فصل في النجاسة،ص:68،  ط: قدیمی)

7:دروازے کی کنڈی،الماری یا فریج وغیرہ پر نجاست لگ جائے تو اسے پانی سے دھونے یا کسی پاک کپڑے کے ساتھ پونچھنے سے پاک کیاجائے،ایسی ناپاک اشیاء محض خشک ہونے سے پاک نہیں ہوں گی، کیوں کہ وہ اشیاء جو پلاسٹک ،لوہے یا شیشے وغیرہ جیسی دھاتوں  سے بنی ہوں ،ان میں نجاست جذب کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی ہے، لہذا خشک ہونے کے باوجود ان کی ظاہری سطح پر نجاست کے اثرات موجود ہوتے ہیں، لہذا مذکورہ نجس اشیاء کو بغیر دھوئے یا کپڑے سے پونچھے بغیر خشک ہونے کے بعد گیلا ہاتھ لگایا جائے تو ہاتھ ناپاک ہوجائے گا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(ومنها المسح) إذا ‌وقع ‌على ‌الحديد الصقيل الغير الخشن كالسيف والسكين والمرآة ونحوها نجاسة من غير أن يموه بها فكما يطهر بالغسل يطهر بالمسح بخرقة طاهرة. هكذا في المحيط ولا فرق بين الرطب واليابس ولا بين ما له جرم وما لا جرم له. كذا في التبيين وهو المختار للفتوى.

(ومنها) الجفاف وزوال الأثر الأرض تطهر باليبس وذهاب الأثر للصلاة لا للتيمم. هكذا في الكافي ولا فرق بين الجفاف بالشمس والنار والريح والظل. كذا في البحر الرائق ويشارك الأرض في حكمها كل ما كان ثابتا فيها كالحيطان والأشجار والكلأ والقصب ما دام قائما عليها فإذا انقطع الحشيش والخشب والقصب وأصابته النجاسة لا يطهر إلا بالغسل. كذا في الجوهرة النيرة."

(كتاب الطهارة، الباب السابع، الفصل الأول في تطهير الأنجاس، ج:1، ص:43، ط:دارالفكر)

8: چوں کہ کھانے پینے کی چیزیں ٹھوس اور  مائع دونوں اقسام میں پائی جاتی ہیں،اسی طرح نجس چیزبھی مائع اور ٹھوس ہوسکتی ہے، اس کے احکام صورتِ حال کے مطابق مختلف ہوسکتے ہیں،اس لیے کھانے پینے کی کسی چیز میں کوئی نجاست گرجائے تو اس کے واقعاتی صورت تفصیلاً بتاکر حکم معلوم کرلیاجائے۔ 

9:واضح رہے کہ بلاعذر کھڑے ہوکر پیشاب کرنا مکروہ (ناپسندیدہ) ہے، یہ مروت ووقار اور اسلامی تہذیب کے خلاف ہے، نیز اِس میں کشفِ عورت (ستر) اور بدن اور کپڑوں کے پیشاب میں ملوث ہونے کا زیادہ احتمال ہے، اور پیشاب کے چھینٹوں سے بچنے کے اہتمام کی تاکید حدیث مبارکہ میں آئی ہے اور اسے عذاب قبر کی اسباب میں شمار کیا گیا ہے، موجودہ دور میں بلاعذر کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کو  غیر مسلموں کا شعار بننے کی وجہ سے حضرت بنوری رحمہ اللہ نے مکروہِ تحریمی کہاہے،  لیکن محض کھڑے ہوکرپیشاب کرنا امامت سے مانع نہیں ہے، الا یہ کہ اس کی وجہ سے ناپاکی کا یقینی علم ہوجائے تو اس صورت میں نماز جائز نہیں ہے،چہ جائیکہ اس نجس حالت میں امامت کروائی جائے۔

البتہ  بیرون ممالک میں اکثر لوگ مسلک شافعیہ سے تعلق رکھتے ہیں،اور شوافع کے نزدیک کھڑے ہوکر پیشاب کرنا جائز ہے،اس لیے اگر وہ لوگ اپنے مسلک کے مطابق کھڑے ہوکر پیشاب کرتے ہوں ،اور ان کے کپڑے اور بدن کے ناپاک ہونے کا یقینی طور پر علم نہ ہوتومحض  شک کی بنیاد پر ان کی اقتدا  میں نماز کو ترک نہ کیا جائے۔ تاہم اگر پھر بھی دل مطمئن نہ ہو  تو سائل کو چاہیے قریبی کسی دوسری مسجد میں نماز ادا کرے۔

نیز  سائل کے لیے  بیرون ملک میں کسی شافعی المسلک امام کی اقتدا  میں نماز ادا کرنا جائز ہے، لیکن فجر کی دوسری رکعت میں شافعی امام جب دعا کروارہا ہوتو ہاتھ نہ اٹھائے،  بلکہ ہاتھ چھوڑ کر چپ چاپ کھڑا رہے،اور دعاؤں پر آہستہ آہستہ آمین کہتا رہے، لیکن یہ حکم اس وقت جب اس دعا سے قبل امام کے ساتھ شریک ہوا ہو، اگر امام رکوع سے اٹھ کر دعا کروانا شروع کردے اور اس وقت تک امام کی اقتدا  میں نماز  شروع نہ کی ہوتو بہتر یہ ہے کہ دعا مکمل ہونے کے بعد امام کے ساتھ شریک ہوجائے، کیوں کہ احناف کے نزدیک  رکوع سے اٹھنے کے بعد طویل قیام عمومی طور پر مشروع نہیں ہے۔

حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:

"ويكره ‌البول ‌قائما:  قال في شرح المشكاة قيل النهي للتنزيه وقيل للتحريم وفي البناية قال الطحاوي لا بأس بالبول قائما اهـ قوله: "لتنجسه غالبا" أي لتنجس الشخص به ولأنه من الجفاء كما ورد قوله: "إلا من عذر" روي أنه عليه الصلاة والسلام بال قائما لجرح في باطن ركبته لم يتمكن معه من العقود وقيل لأنه لم يجد مكانا طاهرا للعقود لامتلاء الموضع بالنجاسات وقيل لوجع كان بصلبه الشريف فإن العرب تستشفي لوجع الصلب بالبول قائما كما قاله الشافعي وقال الغزالي في الإحياء قال زين العرب أجمع أربعون طبيبا على أن البول في الحمام قائما دواء من سبعين داء."

(كتاب الطهارة، فصل فيما يجوز به الإستنجاء،ص:49،ط:دارالكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: وأن يبول قائما) لما ورد من النهي عنه «ولقول عائشة - رضي الله عنها - من حدثكم أن النبي - صلى الله عليه وسلم - كان يبول قائما فلا تصدقوه، ما كان يبول إلا قاعدا» رواه أحمد والترمذي والنسائي وإسناده جيد. قال النووي في شرح مسلم: وقد روي في النهي أحاديث لا تثبت ولكن حديث عائشة ثابت فلذا قال العلماء يكره إلا لعذر، وهي كراهة تنزيه لا تحريم."

(كتاب الطهارة، باب الأنجاس، ج:1،ص:344،ط:سعيد)

معارف السنن میں ہے:

" ثم إن البول قائما وإن كانت فيه رخصة ، والمنع للتأديب لاللتحريم كمال قاله الترمذي ولكن اليوم الفتوى علي تحريمه اولي، حيث أصبح شعارا لغير المسلمين من الكفار واهل الأديان الباطلة ، وكم من مسائل تختلف باختلاف العصور وتغيير المصالح."

(كتاب الطهارة،ج:1، ص:106سعيد)

البحرالرائق میں ہے:

"(قوله لا الفجر) أي لا يتبع المؤتم الإمام القانت في صلاة الفجر وهذا عند أبي حنيفة ومحمد وقال أبو يوسف يتابعه لأنه تبع للإمام والقنوت مجتهد فيه ولهما أنه منسوخ فصار كما لو كبر خمسا في الجنازة حيث لا يتابعه في الخامسة وإذا لم يتابعه فيه فقيل يقعد تحقيقا للمخالفة لأن الساكت شريك الداعي بدليل مشاركة الإمام في القراءة وإذا قعد فقدت المشاركة ولا يقال كيف يقعد تحقيقا للمخالفة وهي مفسدة للصلاة لأن المخالفة فيما هو من الأركان والشرائط مفسدة لا في غيرها قال في الهداية.

‌والأظهر ‌وقوفه ‌ساكتا وصححه قاضي خان وغيره لأن فعل الإمام يشتمل على مشروع وغيره فما كان مشروعا يتبعه فيه وما كان غير مشروع لا يتبعه كذا في العناية وقد يقال إن طول القيام بعد رفع الرأس من الركوع ليس بمشروع فلا يتابعه فيه."

(كتاب الصلاة،باب الوتر، ج:2، ص:48، ط:دارالكتاب الإسلامي)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144407102325

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں