آج کل تکافل انشورنس کا سلسلہ چلا ہے، کیا کسی طرح بھی تکافل انشورنس میں کام کرنا جائز ہے؟
انشورنس کی مروجہ تمام اقسام سود اور جوئے پرمشتمل ہونے کی بنا پرناجائز ہیں، نیز آج کل انشورنس اور بیمہ کے متبادل کے طور پر " تکافل کمپنیز " جو مختلف ناموں سے تکافل کی سہولیات دے رہی ہیں، ان کا طریقہ کار درست نہیں ، اس طریقہ کار میں بھی بعض وہی خرابیاں شامل ہیں جوکہ عام انشورنس اور بیمہ میں ہیں ۔لہٰذا تکافل بھی ناجائز ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
''لأن القمار من القمر الذي يزداد تارةً وينقص أخرى، وسمي القمار قماراً؛ لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه، وهو حرام بالنص.''
(كتاب الحظر والإباحة،فصل في البيع،6/ 403،ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144405100227
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن