بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تکافل پالیسی لینے کا حکم


سوال

جناب میرا تعلق ھالاری میمن جماعت سے ہے اور ان دنوں مستحق فیملیز کے علاج معالجے کے لیے آل پاکستان میمن فیڈریشن کے تعاون سے ٹی پی ایل" تکافل بازار "صحت کا بنا کر دیا جا رہا ہے ، میری بیوی حاملہ ہے اور جولائی 2024 میں ان کا آپریشن ہے ، میں نے ان کا صحت کارڈ 5000 کارڈ فیس جمع کراکر  بنوا لیا ہے،  کاپی سوال کے ساتھ منسلک کر رہا ہوں ۔

اس صحت کارڈ کی شرعی حیثیت پوچھنی ہے شادی شدہ فیملی کے لیے پانچ ہزار روپے میں یہ صحت کارڈ جاری کیا گیا ہے اور اس کی معیاد ایک سال تک ہے ، سال کے دوران مزید کوئی رقم تکافل کمپنی میں جمع کرانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

مذکورہ کارڈ کے ذریعے سے  ہسپتال میں علاج معالجہ آپریشن کے اخراجات ایک حد تک تکافل کمپنی برداشت کرتی ہے، جس کی تفصیل مذکورہ ادارہ کی جانب سے فراہم کردہ فارم میں درج ہے، اس کے علاوہ باقی اخراجات کارڈ ہولڈر کو خود ادا کرنے ہوتے  ہیں۔

کیا میں مذکورہ کارڈ کے ذریعے سے اپنی اہلیہ کا علاج کروا سکتا ہوں یا نہیں؟

جواب

مروجہ تکافل قمار، ربا، و غرر سے خالی نہیں، لہذا تکافل پالیسی لینا، اور اس سے فائدہ اٹھانا جائز نہیں ہوگا۔

أحکام القرآن للجصاصمیں ہے:

"ولا خلاف بين أهل العلم في تحريم القمار وأن المخاطرة من القمار، قال ابن عباس: إن المخاطرة قمار، وإن أهل الجاهلية كانوا يخاطرون على المال، والزوجة، وقد كان ذلك مباحاً إلى أن ورد تحريمه."

(باب تحریم المیسر، سورة البقرۃ، ١ / ٣٩٨، ط: دار الکتب العلمیة بیروت - لبنان)

رد المحتار علي الدر المختارمیں ہے:

"(قوله: لأنه يصير قمارًا) لأن ‌القمار من القمر الذي يزداد تارةً و ينقص أخرى، وسمي ‌القمار قمارًا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص، و لا كذلك إذا شرط من جانب واحد لأن الزيادة و النقصان لاتمكن فيهما بل في أحدهما تمكن الزيادة، وفي الآخر الانتقاص فقط فلاتكون مقامرة لأنها مفاعلة منه زيلعي."

(كتاب الحظر والإباحة، فصل في البيع، ٦ / ٤٠٣، ط: دار الفكر )

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144509101255

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں