بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تکافل کی شرعی حیثیت


سوال

موجودہ تکافل کا شرعی حکم کیا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں   کسی بھی قسم کی  بیمہ (انشورنس) پالیسی  سود اور قمار (جوا) کا مرکب  ومجموعہ ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہے، مروجہ انشورنس کے متبادل کے طور بعض  حضرات  نے  ”تکافل “ کے نام سے جو نظام متعارف کرایا ہے، اس کی بنیاد  ان کے بقول  انہوں نے  وقف کے قواعد  پر  رکھی ہے۔

اس کا طریقہ یہ ہوتاہے کہ  چند افراد مل کر ایک کمپنی قائم کرتے ہیں، پھر نقود کی کچھ مقدار وقف کر کے وقف فنڈ قائم کرتے ہیں، چنانچہ تکافل پالیسی اختیار کرنے والے ہر قسم کے تکافل کے اعتبار سے ماہانہ چندہ جمع کرواتے ہیں، جس کا ایک حصہ وقف فنڈ میں ڈال دیا جاتا ہے، اور ایک حصہ تجارت میں لگایا جاتا ہے،وقف فنڈ میں ڈالا جانے والا حصہ اس پالیسی ہولڈر کی ملکیت سے نکل کر وقف فنڈ کی ملکیت میں داخل ہو جاتا ہے، دوسری طرف فنڈ قائم کرنے والے فنڈ کے مصارف( یعنی:موقوف علیہم)کے لیے شرائط نامہ مرتب کرتے ہیں کہ پالیسی ہولڈر جب فنڈ کو اتنا چندہ دے گا تو بوقتِ ضرورت اُس کی اِس فنڈ سے اتنی مقدار میں مدد کی جائے گی، اور جب اِتنی مقدار میں چندہ دے گا تو اُس کی اِس فنڈ سے اِتنی مدد کی جائے گی۔

 نیز ابتداءً وقف فنڈ قائم کرنے والے خود اپنا بھی تکافل کرواتے ہیں اور اپنی ہی وضع کردہ شرائطِ وقف کے تحت خود بھی مالِ موقوفہ کے فوائد سے منتفع ہوتے ہیں۔

 اس نظام میں وقف کے  قواعد کی مکمل رعایت نہیں کی جاتی ،   ذیل میں اس نظام کی چند بنیادی خامیوں کا ذکر کیا جاتا ہے:

       1-  مروجہ تکافل میں ابتداءً  وقف فنڈ قائم کرنے والے خود اپنا بھی تکافل کرواتے ہیں، اور اپنی ہی وضع کردہ  شرائطِ وقف کے تحت اپنے ہی موقوفہ مال سے  فوائد اٹھاتے ہیں ، جب کہ  نقود کا وقف بذاتِ خود  محلِ نظر ہے، اگر تعامل کی وجہ سے اسے درست مان بھی لیا جائے  تو نقود کا وقف کرنے والا  خود اپنی  وقف کردہ منقولی  شے (نقود  وغیرہ) سے نفع نہیں اٹھاسکتا،  یعنی منقولی اشیاء میں ”وقف علی النفس “ درست نہیں ہے۔

         2-  دوسری خرابی اس نظام میں یہ ہے کہ  یہاں پر عقد کی نسبت  کمپنی (شخصِ قانونی) کی طرف ہوتی ہے، جوکہ ایک فرضی اور معنوی چیز ہے، خارج میں اس کا کوئی وجود نہیں  ہے، جب کہ عقد کرنے والوں کا عاقل، بالغ ہونا ضروری  ہے، اور ظاہر ہے کہ شخصِ قانونی میں ان صفات کا پایا جانا ممکن نہیں ہے،  جس کی بنا پر تمام معاملات حقیقت میں کمپنی کے ڈائریکٹر ہی سرانجام دیتے ہیں ، چناچہ وہ ڈائریکٹر جب ایک  شخصِ قانونی (وقف فنڈ) کو ”رب المال“ اور دوسرے شخصِ قانونی  (کمپنی)  کو ”مضارب“ بناتے ہیں، اس حال میں کہ دونوں کہ متولی وہ خود ہوتے ہیں تو  نفس الامر اور حقیقت میں وہ خود عقد کے دونوں  پہلو ”رب المال“ اور ”مضارب“ بنتے ہیں ، اس لیے کہ ڈائریکٹر حضرات ہی  کمپنی اور  وقف فنڈ کی نمائندگی کرتے ہیں ، گویا وہ یوں کہتے ہیں کہ  (وقف فنڈ کی طرف سے)  ہم مالِ مضاربت کے لیے دیتے ہیں ، اور (کمپنی کی طرف سے) ہم  مالِ مضاربت کے لیے وصول کرتے ہیں ، دوسری طرف عام  طور پر  ان ڈائریکٹرز ہی کو کمپنی کہا جاتا ہے،  نتیجۃً  ایک ہی فرد (حقیقی) خود ہی رب المال ٹھہرا اور خود ہی مضارب، جوکہ شرعاً درست نہیں ہے۔

 3- تیسری خرابی اس نظام میں  یہ ہے کہ  چندہ کی رقم وقف کی ملکیت ہے اور شریعت کی رو سے   اس رقم کا مالک کو واپس کرنا جائز نہیں ہے،  نہ کل کی واپسی نہ ہی جزء کی واپسی،  بلکہ  اس رقم کو وقف کی طرح   صرف وقف  کے مصالح اور مقاصد میں خرچ کیا جاسکتا ہے،  ایسی کوئی صورت نہیں کہ متولی وقف کی ملکیت   واقف  کو واپس کردے،  یا چندہ دہندہ اس کو واپس لے لے،  جب کہ تکافل میں چندے کی رقم چندہ دہندگان کو مختلف  ناموں سے واپس کی جاتی ہے، جس کی شریعت میں کوئی نظیر نہیں  ہے۔

         4- چوتھی خرابی اس نظام میں  یہ ہے کہ اسلام کے نظامِ  کفالت کی بنیاد  خالص تبرع پر ہے،  جیسا کہ رفاہی اور خیراتی ادارے یہ کام انجام دے رہے ہیں، جب کہ مروجہ  تکافل میں پالیسی ہولڈر اور وقف فنڈ کے درمیان ہونے والا عقد،  عقدِ معاوضہ کی حیثیت رکھتا ہے،  تو جس طرح انشورنس  عقدِ معاوضہ ہونے کی وجہ سے  سود ، قمار اور غرر جیسے حرام امور کا مجموعہ ہے،  اسی طرح تکافل میں بھی یہی خرابیاں پائی جاتی ہیں ۔

             لہذا کسی بھی مروجہ تکافل کمپنی  کے ساتھ بھی  کسی  قسم کا معاہدہ کرنا اور اس کا ممبر بننا شرعاً جائز نہیں ہے، اور اگر معاملہ کرلیاہوتو ختم کروالیا جائے، نیز تکافل کمپنی سے صرف اصل رقم وصول کی جاسکتی ہے، زائد  وصول ہی نہ  کی جائے،  اور اگر وصول کرلی ہو تو اس زائد رقم کو   بغیر ثواب کی نیت کے  غرباء اور فقراء میں تقسیم کردیا جائے۔

الہدایہ مع فتح القدیر میں ہے:

"قال الربا محرم في كل مكيل أو موزون إذا بيع بجنسه متفاضلا ... والأصل فيه الحديث المشهور وهو قوله - عليه الصلاة والسلام - «الحنطة بالحنطة مثلا بمثل يدا بيد، والفضل ربا»."

(كتاب البيوع، باب الربا، ج: 7، ص: 3، ط: بولاق مصر)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"‌القمار ‌من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص."

(كتاب الحظر والاباحة، باب البيع، ج:6، ص: 403، ط: سعيد)

صحیح مسلم شریف میں ہے:

"عن أبي هريرة، قال: «نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع الحصاة، وعن بيع الغرر»."

(كتاب البيوع، باب بطلان بيع الحصاة والبيع الذي فيه غرر، ج:3، ص: 1153، رقم: 1513، ط: مطبعة البابي)

فتح القدیر میں ہے:

"ثم إذا عرف جواز وقف الفرس والجمل في سبيل الله، فلو وقفه على أن يمسكه ما دام حيا إن أمسكه للجهاد جاز له ذلك؛ لأنه لو لم يشترط كان له ذلك لأن لجاعل فرس السبيل أن يجاهد عليه، وإن أراد أن ينتفع به في غير ذلك لم يكن له ذلك وصح جعله للسبيل: يعني يبطل الشرط، ويصح وقفه."

(كتاب الوقف، ج:6، ص:219 ، ط: بولاق مصر)

بدائع الصنائع میں ہے:

"(أما) الذي يرجع إلى العاقد فنوعان: أحدهما أن يكون عاقلا...والثاني ‌العدد ‌في ‌العاقد فلا يصلح الواحد عاقدا من الجانبين في باب البيع."

(كتاب البيوع، فصل في شرائط ركن البيع، ج:5، ص: 135، ط: دار الكتب العلمية)

البحر الرائق میں ہے:

"(ولا يملك ‌الوقف) ‌بإجماع الفقهاء كما نقله في فتح القدير ولقوله - عليه السلام - لعمر - رضي الله عنه - «تصدق بأصلها لا تباع ولا تورث» ولأنه باللزوم خرج عن ملك الواقف وبلا ملك لا يتمكن من البيع."

(كتاب الوقف، غرس شجرة ووقفها، ج: 5، ص: 221، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144406100366

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں